گھروں کے سامنے قطاریں بنی ہوئی ہیں، مانگنے والوں کو جھڑکیاں دی جا رہی ہی۔ سارا سارا دن انہیں قطاروں میں کھڑا ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ تب کسی وی-آئی-پی کے ہاتھوں زکوٰۃ کی ساڑیوں اور ملبوسات کی تقسیم کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ تصویر کشی ہو رہی ہے تاکہ اگلے دن کے اخبارات ان کے اس "کارِ خیر" کے کارناموں سے بھرے رہیں۔ انہیں یہ پتا ہی نہیں کہ ۔۔۔
کسی بھی مستحق کی مدد اس طرح کی جائے کہ سیدھے ہاتھ کی خبر بائیں ہاتھ کو نہ ہو !
زکوٰۃ دے کر ، خیرات دے کر یہ لوگ غریبوں پر احسان نہیں کر رہے ہیں ، بلکہ غریب ان لوگوں کی مدد کو قبول کرتے ہوئے ان پر احسان کر رہے ہیں !
آج ہمارے معاشرے میں ایک طرف دولت کی فراوانی ہے، دن بدن دولت مندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور دوسری طرف سطحِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ دولت آتے ہی شہرت کی بھوک میں اضافہ ہو رہا ہے۔
خیر خیرات ، صدقہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں بھی تشہیر کا عنصر نمایاں دکھائی دے رہا ہے۔
پڑوسی بھوکا ہے ، زکوٰۃ کا مستحق ہے لیکن ہمارے یہ نام نہاد دولتمند اپنے عطیات ، زکوٰۃ ، صدقات کی رقم یہاں سے کوسوں دور ان اداروں کو بھیجتے ہیں جہاں پر ان کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔
اسلام کی روح سے عدم واقف ، انا پرست ، ایک دوسرے کے خلاف مخفی بغض رکھنے والے شہرت کے بھوکے لوگ عدم توازن پیدا کر رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ اسلام کی حقیقی شبیہہ سے واقف ہوتے تب اپنے اس پڑوسی کا خیال کرتے جس کی زندگی اس شعر کی تفسیر ہے :
شام کو جس وقت خالی ہاتھ گھر جاتا ہوں
مسکرا دیتے ہیں بچے اور مر جاتا ہوں میں
قوم کے امیروں کو نہ ان بچوں کی بھوک کا خیال ہے اور نہ ان کی بیماری کا احساس اور نہ اس باپ کی حالت کا اندازہ ہے جس کے متعلق ایک حساس شاعر نے لکھا ہے :
بھوکے بچے تھک کے آخر سو گئے
باپ ان کا سو نہ پایا دیر تک !
آج ۔۔۔۔۔۔۔
آج ہمارے گھرانوں میں ، سماج میں ، معاشرہ میں "مذہب" آ چکا ہے لیکن ۔۔۔ دین کی اصل روح غائب ہے !
ہمارے ظاہری اعمال کچھ ایسے ہیں کہ ہمیں دیکھنے والے ہماری مذہبیت پر شک کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے معمولات مذہب کی روح سے عاری ہیں۔ ہمارے نوجوان نماز پڑھ رہے ہیں ، روزہ رکھ رہے ہیں ، اسلامی لباس زیب تن کر رہے ہیں ، لیکن ان کی زندگیوں سے اخلاق غائب ہو چکے ہیں۔ بڑوں کا ادب ، بزرگوں کا احترام ، دوست احباب سے محبت و مروت ، ملت کا درد ، حسن خلق و سادگی ۔۔۔ ان کے نصاب میں شامل ہی نہیں۔
مذہب صرف ظاہری پابندیوں کا نام بن گیا ہے۔ باطن ایک دم الگ راہ پر گامزن ہے۔ دن بدن ایسے حالات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نجانے یہ گاڑی کہاں جا کر رکے گی ، اس کا اندازہ قائم کرنا مشکل ہے۔
کچھ تصرف کیساتھ ، بشکریہ : شیخ احمد ضیاء کی تحریر سے اقتباس
بالکل درست منظر کشی کی گئی ہے ہماری حالت کی،افسوس ہمیں اس کا رتی بھر احساس نہیں کہ ہم منافقت کی انتہاء کو پہنچ چکے ہیں،الللہ ہمیں دین کا صحیح فہم عطا فرمائے،آمین یا رب العالمین،
جواب دیںحذف کریں:(
زکوٰۃ دے کر ، خیرات دے کر یہ لوگ غریبوں پر احسان نہیں کر رہے ہیں ، بلکہ غریب ان لوگوں کی مدد کو قبول کرتے ہوئے ان پر احسان کر رہے ہیں !
سچ کہا لکھنے والے نے ہمارا میل قبول کر کے ہمیں پاک صاف کرنے والے کا ہم پر احسان نہیں تو اور کیا ہے،مگر بڑے بڑے خود کو دین کا علمبردار سمجھنے والے بھی اس سوچ سے خالی ہوچکے ہیں،
اللہ پاک فرماتا ہے کہ،
جس خیرات کے بعد لینے والے کو ایزا دی جائے اس سے تونرم بات کہہ دینی اور (اس کی بے ادبی کرنے کی بجائے) اس سے درگزر کرنا بہترہے،اور اللہ بے پرواہ اور برد بار ہے،
اورمومنوں اپنے صدقات و خیرات احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد نہ کردینا جو لوگون کے دکھاوے کےلیئے مال خرچ کرتا ہے اور خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کے مال کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اس پر زور کا مینہ برس کر اسے صاف کرڈالے،
اس طرح یہ ریا کار لوگ اپنے مال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کر سکیں گے اور اللہ ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔( سورہ البقرہ،آیت 263 سے 264)
testing 123
جواب دیںحذف کریںمعاشرے کی درست تصوير کشی کی ہے آپ نے
جواب دیںحذف کریںآج ہمارے گھرانوں میں ، سماج میں ، معاشرہ میں "مذہب" آ چکا ہے لیکن ۔۔۔ دین کی اصل روح غائب ہے !
جواب دیںحذف کریںہمارے ظاہری اعمال کچھ ایسے ہیں کہ ہمیں دیکھنے والے ہماری مذہبیت پر شک کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے "معمولات مذہب کی روح سے عاری ہیں۔ ہمارے نوجوان نماز پڑھ رہے ہیں ، روزہ رکھ رہے ہیں ، اسلامی لباس زیب تن کر رہے ہیں ، لیکن ان کی زندگیوں سے اخلاق غائب ہو چکے ہیں۔ بڑوں کا ادب ، بزرگوں کا احترام ، دوست احباب سے محبت و مروت ، ملت کا درد ، حسن خلق و سادگی ۔۔۔ ان کے نصاب میں شامل ہی نہیں۔"
ٹھیک کہا آپ نے، اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔