پیرنٹنگ (Parenting) - اولاد کی خبرگیری و تربیت - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2024/01/14

پیرنٹنگ (Parenting) - اولاد کی خبرگیری و تربیت

parenting issues

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
14/جنوری/2024ء
*****


ابھی کچھ دن پہلے کسی کی پوسٹ پر بچے کی ویکسین کے حوالے سے پڑھ رہا تھا اور حسب روایت اس موضوع پر نصف بہتر سے تبادلہ خیال کے دوران بات سے بات یوں نکلی کہ مجھ سے عرض کیا گیا: آپ نے اس موضوع پر کبھی کچھ لکھا ہی نہیں!
سچ بات تو یہی ہے کہ ہم اس قدیم جاگیردارانہ حیدرآبادی نظام کی پیداوار ہیں جب بچے ماؤں کی گود کے علاوہ (بلکہ زیادہ) جوائنٹ فیملی میں موجود موسی، بوا، مالن بی، پھوپھو، خالہ، نانی، دادی کی گودوں میں پلتے کھیلتے بڑے ہو جایا کرتے تھے مگر پھر۔۔۔ ع
بدلا زمانہ ایسا کہ حالات نے کہا الگ گھر بسائیے!
اور تو اور خلیج میں روزگار کے در کھلے تو ہماری قوم کا ایک معتد بہ حصہ وہیں سدھار گیا۔۔۔ پھر چند سال میں پٹرو ڈالر کمائی والے نوجوان کی شادی ہوئی، بچے ہوئے لیکن والدین کو اپنی اولاد کے ہمراہ رہنا تو اکیلا ہی تھا، کیسی پھپھو کیسی خالہ کہاں چاچی کہاں ممانی؟
بچے کو خود نہلائیں دھلائیں کھلائیں پلائیں، اس پر ہر دم نظر رکھیں، اس کے ساتھ کھیلیں، وقت گزاریں، اسے گھر سے باہر لے کر گھومیں، دھوپ دلائیں، حرارت چیک کریں، اس کی ویکسین کے ایام کا خیال رکھیں، پیمپر، نیڈو/گین دودھ کے ڈبے، سیریلاک، کپڑے لتے، شیمپو صابن وغیرہ وغیرہ۔


اگر کوئی مردِ دانا یہ سمجھتا ہے کہ اس گلوبل پدرشاہی سماج میں اس کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بیٹھے ممالک کے مسائل اور ان کے حکمرانوں کے طرز عمل پر غوروفکر کرے، انہیں اپنے نادر و مفید مشوروں سے نوازے، شعر و ادب و کتب کی گل فشانیوں میں مصروف بہ کار رہے، زبان کی باریکیوں نزاکتوں رسم الخط کی نکتہ آفرینی چھیڑے، سیاسی ریشہ دوانیوں کی لن ترانیاں ہانکے، مذہبی پوسٹرز، اخلاقی اقوال زریں، لذت کام و دہن کی تصویریں چھلکائے، مذہب مسلک طبقہ فرقہ واری تقسیم کے خلاف زبانی کلامی مہم چلانے کی اداکاری کرے۔۔۔
مگر جسے یہ نہ معلوم ہو کہ اپنے بچے کا پیمپر کیسے بدلنا ہے، بوتل میں دودھ پاؤڈر کتنا اور گرم پانی کی مقدار کتنی ملانی ہے، بدن کی حرارت کیسے جانچنی ہے، بچے کے درد کا اصل مقام کیسے معلوم کرنا ہے، کندھے پہ ٹکا کے بچہ کی ڈکار نکلنے تک کیسے ٹہلانا ہے۔۔۔
تو بھائی میرے، ایسا شخص کوئی مردِ دانا نہیں بلکہ اس حقیر پرتقصیر کی رائے میں بےدال کا بودم ہے۔

ایک باپ خون پسینہ ٹپکا کے، کرنسی کے انبار جمع کرکے اچھے سے اچھے اسکول/کالج میں اپنے بچوں کو بےشک اعلیٰ و معیاری تعلیم دلا سکتا ہے مگر۔۔۔ ماں کے پیٹ سے نکلے جگرگوشوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کے، سینے سے لگا کے، پھر اسے رینگنے سے، کھڑنے ہونے چلنے دوڑنے بھاگنے کے مرحلے تک پہنچانے میں اپنا وقت اور اپنی محبت نہ لگائے تو شاید کوئی کمال نہ کیا۔
اچھا خیر سے دوسرا کمال تو یہ ہوا کہ ادھر کسی بات پر زوجین میں چخ پخ ہو ادھر بات بند اور بچی کھڑی بیچ میں منہ بسورتے ہوئے۔ معلوم ہوا کہ "نمبر ٹو" ہو چکا اور اماں نے کہا کہ جاؤ ابو سے دھلوا لو۔ پاجامہ اتاریے، حمام میں لے جائیے، بچی کو کہیں کہ دونوں ہاتھ دیوار پر ٹکا کر پیر پھیلا کر کھڑی رہے، خبردار جو ذرا ہلنے کی کوشش کی۔۔۔ ابھی نل سے بکٹ میں پانی بھرنا شروع کیا ہی نہیں کہ خوفناک بیگماتی آواز میں تنبیہ ملتی ہے: "گرم پانی سے دھلوائیے"!

پیمپر بدلتے بدلتے ٹھیک ڈھنگ سے باندھنے کا طریقہ تو باپ سیکھ ہی لے گا کسی دن، مگر سو ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا رات دن بچہ پیمپر باندھے گھر میں دوڑے گا اچھلے گا کودے گا؟ پھر معصوم سی تشریف شریف پر اِسکن ریشز پیدا ہو جائیں تو جانسن لوشن اور نووا ویسلین لگاتے بیٹھیے۔ سو بہتر ہے کہ صرف رات میں ہی پیپمر باندھنے کی زحمت اٹھائی جائے۔۔۔ دن میں نظر رکھنا ماں کا کام، شام میں دفتر سے واپسی پر باپ کی ذمہ داری۔ اب چاہے آپ کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے گود میں لے کے بیٹھیں اور کچھ ہی دیر بعد پتا چلے کہ بھئی یہ گھر کے اندر ایسی کیسی برسات برس رہی ہے کہ نہ سر بھیگ رہا ہے اور نہ بدن بس گیلا جو ہو رہا ہے تو وہ خود کا پاجامہ! یوں اچانک انکشاف ہوتا ہے کہ کچن میں ڈنر تیار کر رہی بیگم کو آواز دے کر خطرہ مولا نہیں جا سکتا بلکہ بچی کا پیشاب دھلانا اور کپڑے بدلوانا باپ کا فریضہ ہے!

وہ کون سے باپ ہوتے ہیں بھئی کہ جنہیں پتا نہیں ہوتا کہ بوتل میں دودھ پاؤڈر کے ساتھ گرم پانی ملایا جاتا ہے ٹھنڈا نہیں۔۔۔ ہاں پانی بہت زیادہ گرم ہو تو تھوڑا سا نارمل حرارت والا پانی مکس کرنے میں مضائقہ نہیں۔ سو جانو/جانم ٹائپ گذشتہ اسفار کے دوران تھرماس فلاسک میں چائے/کافی ساتھ لے جاتے رہے تو اب بچوں والے باپ کے ہاتھ میں تھمے تھرماس میں صرف گرم پانی ملے گا کوئی دیگر مشروب نہیں۔ ایک مرتبہ شمس آباد ائرپورٹ پر حیدرآباد سے ریاض لوٹتے ہوئے بیگج چیکنگ اسٹاف نے ہاتھ میں پکڑے تھرماس فلاسک کو روک لیا۔ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر چھوٹے بچے کو منتقل کرتے ہوئے سمجھایا بھی کہ یہ اس بچے کے دودھ کا گرم پانی ہے جناب۔۔۔ مگر اصرار ہوا کہ نہیں حضور، آپ پہلے چکھ کر بتائیے۔ جھلاہٹ میں یاد نہ رہا کہ فلاسک میں پانی گرماگرم ہی ہوتا ہے، کھولا اور پانی منہ میں انڈیل لیا۔۔۔ پھر زبان اور حلق کا جو حشر نشر ہونا تھا، ہوا! کوئی مہینہ ڈیڑھ مہینہ لگا بچارے حلق کو سمجھانے کہ بس یار غلطی ہو گئی معافی دے دو!


آج کے دور میں بچوں کے لیے ویکسین کے کئی سالہ پروگرام پر پابندی سے عمل آوری لازم ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کئی دقیانوسی خاندان کے بڑے بزرگ ایسے ہیں جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہم کو بس سیدھے ہاتھ پر ایک ٹیکہ لگا تھا چکن پاکس کا چھٹی/ساتویں دہائی میں، ہم مر گئے کیا، آج بھی سلمان خان جیسی باڈی رکھتے ہیں دیکھو الحمدللہ۔ اچھا تو بھائی جان، پھر کووڈ دور میں گھر میں چھپ چھپا کر کیوں بیٹھے تھے؟ اسپتالوں میں انسانیت کی بھلائی کے لیے مردانہ وار اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کرنا تھا ناں!
ہم نے تو ایک نہیں پانچ بچوں کے ویکسین کے سلسلہ وار پروگرام کا بہ پابندی خیال رکھا تھا۔ پانچ بچوں کی پانچ سالگرہیں تو سال کے پانچ مہینوں میں آتیں مگر مہینہ دو مہینہ نہیں گزرتا کہ میڈیکل کارڈ کی تاریخ سامنے آ جاتی کہ فلاں بچہ کا فلاں ویکسین ہے کل۔ خلیج بالعموم اور سعودی عرب بالخصوص میں برسرروزگار برصغیری افراد کو ان خلیجی ممالک کا احسان مند ہونا چاہیے کہ جہاں بچوں کے لیے مفت ویکسین کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ ورنہ برصغیر کے کارپوریٹ اسپتالوں میں 'بہتر صحت کی ضمانت' کے نام پر جو لوٹ مار مچی ہے اسے صرف وہ طبقہ جھیل سکتا ہے جسے اپنی کمپنی سے فیملی میڈیکل انشورنس کارڈ جاری ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ریاستی حکومتوں کے سرکاری اسپتالوں میں بھی ایسی مفت سہولت فراہم کی گئی ہے مگر جو معیار روا رکھا گیا ہے، اس کا نقص سب ہی جانتے ہیں۔ ہرچند کہ سعودی عرب میں بھی ہر نوکری پیشہ یا لیبر کو میڈیکل انشورنس کارڈ دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی گھر سے قریب والے بعض اسپتال جب پالیسی وجوہات کے ناتے کارڈ قبول نہ کریں تو بندہ ایک ویکسین پر کئی سو ریال خرچ کرے یا سرکاری اسپتالوں کی مفت معیاری سہولیات سے استفادہ کرے جہاں صرف شناختی کارڈ دکھانے کی شرط لاگو ہوتی ہے؟


خیر چلیے جانے دیجیے، کسی اور وقت کچھ اور باتیں سہی۔ مگر کہنا اتنا ہے کہ یہ بھی اردو زبان کا ایک موضوع ہے۔ مگر اس کی طرف توجہ دلانے کا مقصد یہ نہیں کہ سب اس پر بھی لکھیں، کیونکہ بیشتر قلمکاروں کے موضوعات کے میدان مخصوص ہوتے ہیں اور ایسی تخصیص ان کا حق ہے۔ جو لکھنے والے مختلٖف موضوعات پر طبع آزمائی کرتے ہیں انہیں توجہ دلانا مقصود ہے کہ زبان کے موضوعات کے دامن کو کشادہ کیجیے، زبان کی دنیا صرف ادبی، سیاسی، مذہبی و تفریحی موضوعات تک محدود نہیں ہے۔ مگر ظاہر ہے مشورہ دینے والے کو بھی کچھ عمل کرکے دکھانا چاہیے سو یہ مختصر تحریر پڑھنے والوں کی نذر ہے ؎


ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا
اب جس کے جی میں آئے وہی بانٹے روشنی

Parenting issues and the responsibilities of a father

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں