پھر سوئے حرم لے چل۔۔۔ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2024/01/12

پھر سوئے حرم لے چل۔۔۔

jannatul baqee
بقیع الغرقد : جنت البقیع قبرستان

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
12/جنوری/2024ء
*****


چلو چلیں عمرہ و زیارتِ مدینہ ۔۔۔


بدھ کی دوپہر لنچ کے کچھ دیر بعد کوئی دفتری ساتھی جلدی جلدی کام نپٹا کر سسٹم بند کرتے ہوئے گھر واپسی کی تیاری میں نظر آئے تو دیگر ساتھی سمجھ جایا کرتے:
"کیوں بھائی، نکل رئیں کیا عمرہ و زیارت کو، دعاؤں میں یاد رکھنا"۔
"ہَو یارو، ضرور ضرور۔ آپ کو تو معلوم اِچ ہے چار بجے رہنا اسپاٹ پر"


یہ ذکر ہے سعودی عرب کے دارالحکومت شہر ریاض کے ایک محلہ "حئ الوزارات" کا۔ کہا جاتا ہے کہ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کے اواخر میں ہند و پاک و بنگلہ دیش کے باشندگان روزگار کی خاطر سعودی عرب کا رخ کرنے لگے تو ریاض پہنچنے والی اکثریت نے اس محلے میں سکونت اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ اور جیسا کہ لمبے نام کو مختصر کرنے والی برصغیری ذہنیت ہے تو یہ محلہ "حارہ" کہلانے لگ گیا، پھر یو۔پی بہار حیدرآباد کے سبز شملہ پوشوں نے مزید آگے بڑھ کر اسے "حارہ شریف" جیسا مہذب و متبرک لقب عطا کر دیا۔ گوکہ ریاض میں برصغیر کے باشندگان کی اکثریت ایک اور محلہ "بطحاء" میں بھی قیام پذیر ہے مگر جو مقبولیت "حارہ شریف" کو حاصل ہوئی اس درجہ تک کوئی دوسرا محلہ شاید ہی پہنچ پایا ہو۔ ایسا ہی شرف، جدہ میں بلد، باب مکہ، باب شریف، عزیزیہ جیسے محلوں کے مقابل "شرفیہ" کو حاصل رہا ہے۔


یہاں ذکر ہے عمرہ و زیارتِ مدینہ والی پرائیویٹ ٹورسٹ بسوں کا۔
کچھ مخیر سعودی اداروں و اشخاص کی جانب سے زائرین کو پرائیویٹ ٹورسٹ ایجنسیوں کے ذریعے انتہائی ارزاں قیمت میں سفر و قیام کی سہولت فراہم کی جاتی رہی ہے۔ شاید یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہو۔ راقم الحروف کا ورود مسعود ریاض میں 1995 کے اواخر میں ہوا تھا۔ اس وقت ان بسوں کا کرایہ محض 50 ریال تھا یعنی ریاض-مکہ-ریاض سفر مع ہوٹل میں چند گھنٹے کا قیام۔ جمعرات کو بعد عصر چار اور پانچ بجے کے درمیان "حارہ شریف" سے بس نکلتی، جمعہ فجر کے وقت مکہ پہنچتی اور عصر سے قبل ڈھائی تین بجے دوپہر کے قریب مکہ سے روانہ ہو کر رات ایک یا دو بجے تک واپس حارہ شریف پہنچ جاتی۔ یعنی ایک بندہ محض 50 ریال میں 'عمرہ' جیسی عبادت سے مستفید ہو جاتا۔ اور اگر زیارتِ مدینہ کا بھی قصد ہو تو بس بدھ کی شام بعد عصر "حارہ شریف" سے نکلتی، جمعرات فجر کے وقت مدینہ پہنچاتی اور مدینہ سے بعد ظہر جو نکلتی تو عشاء سے پہلے یا بعد مکہ پہنچا دیتی۔ ہوٹل میں ایک رات قیام کی بھی ٹورسٹ ایجنسی کی طرف سے سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اور واپسی وہی جمعہ کی نماز کے بعد۔
تو حارہ شریف کے دو یا تین کھلے میدانوں میں سینکڑوں بسوں اور زائرین کا مجمع ہر ہفتہ کچھ اوقات جمع ہوتا رہا ہے۔ مکہ/مدینہ کو روانگی کے موقع پر، بدھ اور جمعرات کو بعد عصر کے وقت اور ہفتہ کی علی الصبح (یعنی جمعہ کی رات) ایک سے تین بجے کے دوران ریاض واپسی کے موقع پر۔
برصغیر کے سینکڑوں گھرانوں کے لیے یہ سفر گویا ٹو اِن وَن ثابت ہوتا، ایک شہر سے دوسرے شہر کی تفریح اور عمرہ و زیارت سے استفادہ۔ اس سفر میں ہر عمر کے انسان کی شمولیت ہوتی، گود کا نومولود بھی اور اسی نوے سال کے بزرگ بھی۔ جو نورانی ذوق و شوق بچوں بڑوں بوڑھوں کے چہروں سے جھلکتا دیکھا ہے وہ یادداشت کے نہاں خانوں میں اب بھی تازہ ہے۔


بس کے سفر کا یہ کرایہ وقت کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت جو بڑھا بھی تو زیادہ سے زیادہ 150 ریال تک پہنچا۔ یہ میں اپنے آخری عمرہ/زیارت سفر کا ذکر کر رہا ہوں یعنی فروری/مارچ 2016ء کا۔ ہرچند کہ سعودی قومی ٹرانسپورٹ سروس (سابتکو) کی بسیں بھی نہایت آرام دہ اور محفوظ سفر کی ضامن ہوتی ہیں۔ مگر ان کا یکطرفہ کرایہ ہی کوئی 150 ریال ہوتا رہا ہے اور پھر مکہ/مدینہ میں قیام کی کوئی سہولت بھی فراہم نہیں کی جاتی۔ اسی طرح ریاض سے مکہ/مدینہ فلائیٹ کا یکطرفہ کرایہ بھی اُس دور (2010 سے 2016) میں 200 سے 300 ریال رہا ہے۔

Allah names exhibition at Madina
اسمائے الحسنیٰ نمائش گاہ (مدینہ منورہ)

مجھے یاد نہیں کہ 2006ء سے 2016ء کے درمیان کتنی دفعہ اہل و عیال کے ہمراہ ان پرائیویٹ عمرہ بسوں کے ذریعے عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ البتہ مدینہ کی زیارت صرف تین بار ممکن ہو سکی۔ مجھ سمیت سینکڑوں برصغیری گھرانوں کے لیے واقعی یہ ایک نادر تجربہ رہا ہے کہ گیارہ/بارہ گھنٹے کا طویل بس سفر جاتے اور آتے وقت طے کیا جائے۔ بچوں اور بزرگوں کا اس سفر کے دوران خیال رکھنا بھی ایک اہم ذمہ داری ہوا کرتی۔ رمضان کے دوران تو بڑا ہی روح پرور ماحول قائم ہو جاتا۔۔۔ بچوں والے گھرانوں کی پوری کوشش یہی ہوتی کہ رمضان کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں عمرہ کی فراغت حاصل کی جائے۔ جبکہ متعدد بیچلرز یا میاں/بیوی جوڑے ایامِ اعتکاف کی مناسبت سے آخری عشرے کو ترجیح دیتے۔ کچھ فیملیز تو پانچ روزہ ایسے عمرہ پیکیج سے فائدہ اٹھایا کرتے جو عید سے دو یا تین دن قبل مکہ/مدینہ کو بس لے جاتی اور عید کے دوسرے دن واپس ریاض لے آتی۔ مجھے اپنا ایک پاکستانی دوست ایسا بھی یاد ہے جس نے ایک دفعہ پتا نہیں اپنی کس نیت کو پورا کرنے رمضان کا ہر جمعہ مکہ میں عمرہ کر کے یوں گزارا تھا کہ ۔۔۔۔


بھٹکے ہوئے آہُو کو پھر سُوئے حرم لے چل
پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے
جو قلب کو گرما دے، جو رُوح کو تڑپا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اَوروں کو بھی دِکھلا دے!!

Umrah or Madina visit by Saudi Private tour operator's lowest price ticket bus services

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں