حلف - حیدرآباد لٹریری فورم ادبی تنظیم کی رپورٹس پر مشتمل کتابچہ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2024/01/16

حلف - حیدرآباد لٹریری فورم ادبی تنظیم کی رپورٹس پر مشتمل کتابچہ

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
16/جنوری/2024ء
*****


بڑی شاعری کی تخلیق کے لیے جزوقتی شاعری کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کام کے لیے آدمی کو پوری طرح شاعر ہونا چاہیے : ضیاء الدین شکیب۔


"حلف" یعنی: 'حیدرآباد لٹریری فورم' شہر حیدرآباد دکن کی ایک نمایاں، معروف و معتبر ادبی تنظیم رہی ہے جو اردو ادب میں جدیدیت کی تحریک کی علمبردار رہی۔ 1975ء میں جب اس کا قیام عمل میں آیا تب اس کے بانی اراکین میں والد ماجد رؤف خلش (مرحوم) کے علاوہ پھوپھا مرحوم غیاث متین، حسن فرخ، اعظم راہی، احمد جلیس، رفعت صدیقی، رؤف خیر وغیرہ شامل رہے۔ تقریباً چار دہائیوں تک اس کے ادبی اجلاس اپنی آب و تاب کے ساتھ منعقد ہوکر شہر حیدرآباد میں علم و ادب کی راہیں روشن کرتے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ 'حلف' کے ادبی اجلاس کی رپورٹیں ریاست (سابقہ متحدہ) آندھرا پردیش و بیرون ریاست کے اخبار و رسائل میں بڑے اہتمام سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ کچھ عرصہ قبل والد مرحوم کی کتب کے انبار میں ایسا ہی ایک کتابچہ نظر آیا، جو 'حلف' کے پانچ اجلاسوں کی روئداد پر مشتمل تھا (جولائی 1985ء تا ستمبر 1985ء) اور جسے ممتاز شاعر علی ظہیر نے مرتب کیا تھا۔ میں نے اسے حیدرآباد کی ادبی تاریخ کا ایک اہم حصہ سمجھ کر تعمیر پبلی کیشنز کے زیراہتمام ستمبر 2023ء میں، اس کی اشاعت بین الاقوامی سطح پر عمل میں لائی اور جب اس کے چند نسخے بیرون ممالک کی لائبریریوں نے خریدے تو خوشی ہوئی کہ: علاقائی سطح پر اردو کی ترقی و ترویج میں مشغول اداروں/تنظیموں کی تاریخ دنیا کے مختلف ممالک میں کتابی شکل میں محفوظ کی جا رہی ہے۔
دسمبر/جنوری کے مہینوں میں امریکی و یورپین ممالک میں کتابوں کی خریداری عروج پر ہوتی ہے اور ابھی کل ہی جب پتا چلا کہ اسی کتابچے (صفحات: 32) کے مزید پانچ نسخے اسی ہفتے فروخت ہوئے ہیں تو مزید خوشی ہوئی۔


ماہرِ دکنیات و اقبالیات ڈاکٹر ضیاء الدین احمد شکیب (پیدائش: اکتوبر 1933ء ، وفات: 20/جنوری 2021ء) شہر حیدرآباد کی ایک علمی و ادبی شخصیت ہونے کے علاوہ شعر و شاعری کے میدان میں بھی ایک منفرد مقام کے حامل تھے۔ وہ تاریخ داں کی حیثیت سے بھی خاصے معروف تھے کہ قلمی نسخوں کی شناخت میں انہیں کمال حاصل تھا۔ سابقہ متحدہ ریاست آندھرا پردیش کے محکمہ آثار قدیمہ میں کچھ مدت تک خدمات انجام دینے کے بعد وہ لندن منتقل ہو گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ماہ جولائی 1985ء میں جب ایک مختصر دورہ پر ان کی حیدرآباد میں آمد ہوئی تھی تب 'حلف' نے ان کے اعزاز میں ایک خصوصی ادبی نشست ('حلف' کا 24 واں اجلاس) کا اہتمام کیا تھا جس کی رپورٹ بھی متذکرہ کتابچے میں شامل ہے۔ اسی اجلاس کی رپورٹ سے ماخوذ شکیب صاحب مرحوم کی تقریر کے چند دلچسپ اقتباسات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔


(بمقام ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ، نامپلی اسٹیشن روڈ، حیدرآباد لٹریری فورم کا چوبیسواں اجلاس 28/جولائی 1985ء شام سات بجے جناب مضطر مجاز کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں لندن سے آئے ہوئے محقق اور دانشور ڈاکٹر ضیا الدین شکیب نے اردو کی جدید شاعری پر تقریر کی۔)

ضیا الدین شکیب نے کہا:
"بڑی شاعری کی تخلیق کے لیے جزوقتی شاعری کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کام کے لیے آدمی کو پوری طرح شاعر ہونا چاہیے۔ انگریزی زبان کے شعرا میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اکثر جدید انگریزی شاعر محض شاعری کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکے ہیں۔ شاید یہ بات اس لیے بھی ممکن ہے کہ وہاں کا معاشرہ فن کی قدر کرتا ہے۔
لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر شعر کہتے اور پڑھتے ہیں۔ میں شعر تاریخ کے نقطۂ نظر سے پڑھتا ہوں۔ اس لیے میں یہ دیکھتا ہوں کہ شاعر نے زبان کو، سوسائٹی کو اور ادب کو کیا دیا؟"


ضیا الدین شکیب نے جہاں ہندوستانی اور پاکستانی شعرا کے مابین ماحول اور حالات کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے تفریق کی نشاندہی کی وہیں یہ بھی کہا کہ انگلستان کے ماحول کے فرق کی بنا پر لندن میں لکھنے والوں اور برصغیر کے لکھنے والوں کے مابین فرق واضح ہے، اسی لیے برصغیر کے شعرا کو مغربی ادبی تحریکات سے وابستہ ہو کر ان کی نقالی نہیں کرنی چاہیے۔
ضیا الدین شکیب نے بتایا کہ لندن میں اردو بولنے والوں میں زیادہ تر شعرا کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ہرچند کہ لندن میں ہندوستان اور پاکستان کے لکھنے والوں کی اکثر تخلیقات پڑھنے کو مل جاتی ہیں لیکن شہر حیدرآباد کے لکھنے والوں کی چیزیں وہاں بہت مشکل سے ملتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حیدرآبادی شعرا سے لندن میں لوگ واقف نہیں ہیں۔ پھر انہوں نے 'حلف' کے بعض شعرا کے نام گنواتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ لندن میں بخوبی جانے جاتے ہیں۔


ضیا الدین شکیب نے شاعری میں فکری عناصر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جتنا حیدرآبادی شعرا میں فکری عنصر انہیں نظر آتا ہے وہ ہندوستان کے اور جگہوں سے تعلق رکھنے والے شعرا کے ہاں نظر نہیں آتا۔ اسی طرح مغرب اور مشرق کی شاعری میں جس قدر مثبت عناصر ہم کو مشرق میں ملتے ہیں، مغرب میں نظر نہیں آتے۔ کیونکہ وہاں مستقبل سے مایوسی ہے جبکہ ہماری تہذیب ترقی پذیری کے عمل سے گزر رہی ہے اس لیے ہم کو مستقبل سے ابھی ویسی مایوسی نہیں ہے اور چونکہ مستقبل بجائے خود ایک تخلیقی عمل ہے اسی لیے جو مستقبل سے وابستہ ہوگا اس کے پاس تخلیقی اظہار بھی بیشتر ہونا چاہیے۔ برصغیر کی شاعری میں مایوسی کا پایا جانا غیرفطری ہے۔

A booklet on reports of literary meetings by Hyderabad Literary Forum.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں