یہ کانفرنس، یہ ورکشاپس، یہ سمیناروں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے۔۔۔۔
ہمارے ایک ہمدرد نے ذرا جھجھکتے جھجھکتے ہم سے پوچھا: " آج کل آپ کیا کر رہی ہیں؟" ہم نے جواب دیا: "کوئی خاص کام نہیں"۔
انھوں نے لہجے میں کچھ اور ہمدردی گھول کے کہا: پھر تو وقت مشکل سے کٹتا ہوگا۔۔۔"
"ارے نہیں، ہم تو پہلے سے بھی زیادہ مصروف ہو گئے۔ کاٹنے کے لیے
'وقت ڈھونڈے ڈھونڈے نہیں ملتا'۔۔۔"
اس کو وہ ہماری ادا اور عادت سمجھ کے خاموش ہو گئے۔ لیکن خود اپنی عادت سے مجبور ہو کر دوسرا سوال داغ دیا۔
"گذر بسر بھی ذرا تنگی ترشی سے ہوتی ہوگی۔۔۔"
"توبہ کیجئے۔ تنخواہ سے زیادہ ٹھاٹ ہیں"۔ ہم نے ان کی ساری مایوسیوں پر پانی پھیر دیا۔
"ہاں ہاں کیوں نہیں۔ وہ جی۔ پی ایف (GPF) وغیرہ انٹریسٹ اچھا خاصا مل جاتا ہوگا"۔ انھوں نے اپنے حسابوں ہماری آمدنی کا حساب لگانا شروع کیا۔
"حضور کیسا جی۔ پی ایف اور کہاں کا سود۔ وہ تو ابھی ملا ہی نہیں۔۔۔"
"پھر؟" ان کی حیرت بے حساب اور بے اندازہ بڑھنے لگی۔۔۔ ہم نے سوچا انھیں زیادہ پریشان کرنا مناسب نہیں ہے۔ چہک کے ہم نے کہا: "تنگی ونگی کیسی۔ سلامت رہیں یہ کانفرنس اور ورک شاپس۔۔۔"
سیدھے سادے آدمی ہیں۔ سمجھنے کے بجائے اور الجھ گئے: "کیا کوئی آل انڈیا کانفرنس اینڈ ورک شاپ ڈپارٹمنٹ کھل گیا ہے۔۔۔؟ کس منسٹر کے تحت ؟"
"یہاں تو صاحب، جب کھیل کود، گلی ڈنڈا، کشتی دنگا، ناچ رنگ، یاترا پدیاترا۔۔۔ ہر چیز کے شعبے قائم کئے جا چکے ہیں تو پھر کانفرنس کا شعبہ کیوں نہیں؟ خیر، ابھی نہ سہی پھر کبھی۔ بیسویں صدی میں نہ سہی اکیسویں صدی میں یہ شعبہ ضرور قائم ہوگا۔ وزیر کابینہ کے درجے سمیت۔"
تو ان ہمدردِ صحت صاحب کو ہم نے اطمینان دلایا کہ فی الحال ایسا کوئی محکمہ قائم نہیں ہوا اور آپ اس میں کسی (Keypost) کو حاصل کرنے کے لئے دوڑ بھاگ نہ کیجئے۔ مگر ہماری اور خوشحالی کا راز پھر بھی کا نفرنسیں اور ورکشاپس ہیں۔
تو حضور آپ سب کی اطلاع کے لئے بھی عرض ہے کہ موسم بہار تو سال میں ایک بار آتا ہے اور اب تو اس کے لئے بھی حالات سازگار نہیں۔ مگر کانفرنس اور ورک شاپ موسم خزاں کی طرح سال بھر چلتی رہتی ہیں۔ آج تعلیمی کانفرنس ہے تو کل کتابیں پڑھاؤ اور بستہ بڑھاؤ ورک شاپ، تو پرسوں بستہ اتارو اور کتابیں پھینک سیمینار۔ کسی دن درخت اگاؤ پر بات چیت ہے تو کسی دن جنگل بچاؤ۔ شیر پالو، گیدڑ بڑھاؤ کی مہم کے تحت جنگل میں منگل منایا جا رہا ہے۔ کہیں بیگم بھاؤ بتا رہی ہیں تو کہیں سدبھاؤ کے لاڈ دلار ہو رہے ہیں۔ کہیں اہل نظر کی فکر و نظر پر فلسفیانہ گفتگو ہو رہی ہے، تو کہیں نابیناؤں کے مسائل پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔ (علمی ادبی اور شعری کانفرنسوں کا تو فی الحال ذکر ہی نہیں۔)
غرض یہ کہ ہزار جلوے ہیں اور منوں ٹنوں حلوے مع منڈوں کے۔ بس نظر اٹھائیے۔ ہاتھ بڑھائیے اور عقل چلائیے۔ پھر تو راوی کو چین کے علاوہ اور قسمت میں لکھنے کے لئے کوئی اور لفظ ملے گا ہی نہیں۔ کہ بھارت ورش میں سونے کی چڑیا اب بھی ہیں اور سونے کے انڈے دینے والی مرغیاں بھی۔ یہ اور بات ہے کہ یہ چڑیا ہر کسی کے پنجرے میں اور مرغیاں ہر ڈربے میں قید نہیں ہو سکتیں۔
مگر گنگا تو ہر ایک کے لئے بہتی ہے۔ ہم تو ہاتھ دھو ہی رہے ہیں۔ آپ بھی دھوئیے جب تک اس کا پانی اس قابل رہے!
اقتباسات از مضمون "بعد سبکدوشی کے" (کتاب: ٹیڑھا قلم)
مصنفہ: شفیقہ فرحت
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں