حیدرآباد اور سہ رنگ شعلے - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2024/02/09

حیدرآباد اور سہ رنگ شعلے

mandir-masjid-laldarwaza-hyderabad-oldcity

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
9/فروری/2024ء
*****


حیدرآباد اور سہ رنگ شعلے
The Three Musketeers of Hyderabad

مالیاتی سال کا اختتام ہے لہذا حسب روایت دفتری مصروفیات کچھ ایسی سر پڑی ہیں کہ جو تھوڑا بہت وقت میسر بھی ہو تو بس گزارا لائق آن لائن مطالعے میں گزر جاتا ہے۔ مگر کل اتفاق سے ایک دو نہیں بلکہ تین چبھتی ہوئی ایسی چٹخارے دار حیدرآبادی تحریریں نظر سے گزریں جن سے محظوظ نہ ہونا کفرانِ نعمت قرار پاتا۔ متذکرہ تحریروں کا لنک تو کمنٹ میں دے دیا جائے گا لیکن لکھنے والوں کا کچھ تعارف اور کچھ اقتباسات بھی پیش ہیں تاکہ اچھے مطالعے کے شائقین انہیں فالو کر سکیں۔


ڈاکٹر عابد معز

یہ ہیں تو پیشۂ طب سے وابستہ ڈاکٹر صاحب، مگر اردو سے محبت اتنی ہے کہ اپنے مطب کا نام تک "اردو کلینک" سے موسوم کر رکھا ہے۔ ان کے زیادہ تعارف کی ضرورت بھی نہیں کہ یہ اردو کے عالمی منظرنامے پر طنز و مزاح کے ممتاز ادیب اور کثیرالتصانیف مصنف کی حیثیت سے مشہور و مقبول ہیں۔ ان کے مطب "اردو کلینک" پر بچارے مریض آتے ہوں گے تو قوی امکانات ہیں کہ چاروں دیواروں کی شوکیسوں میں دواؤں کے ڈبوں کے بجائے سلیقے سے جمی کتابوں کے انبار کو دیکھ کر مرعوب و پریشان ہو جاتے ہوں گے۔ مرعوب اس لیے کہ: ابا بابابا بڑا پڑھا لکھا ڈاکٹر لگتا ہے یارو۔ اور پریشان اس لیے کہ: کہیں ڈاکٹر صاحب دوا کی پڑیا دینے کے بجائے کوئی کتاب تھما کر یہ نہ کہہ دیں کہ فلاں صفحے کا فلاں پیراگراف علی الصبح نہار پیٹ اور ہر طعام سے قبل رٹ لیجیے، انشاءاللہ افاقہ ہوگا۔ ویسے آپس کی بات ہے۔۔۔ ان سے ملنے والے حیدرآبادی دوست احباب بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب سے ان کی لائبریری کی کوئی کتاب مانگنا ایسا ہے جیسے اوکھلی میں سر دینا۔ کتاب وقت پر واپس نہ کی جائے تو سیدھے ہائیکورٹ کے کسی وکیل کی نوٹس اپنے نام وصول ہو جاتی ہے۔
خیر کل عابد معز نے ایک انشائیہ بعنوان "میں بھی حاضر تھا وہاں" اپنی ٹائم لائن پر جو پیش کیا وہ ایک جامعاتی ادبی سمینار کی مظلومانہ روداد تھی جہاں کسی پروفیسر صاحب نے انکشاف فرمایا کہ اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ نہیں بلکہ شاہجہاں کے دربار کا ایک فارسی/اردو کا شاعر چندر بھان برہمن ہے۔
اب اس موضوع پر جو خامہ فرسائی ڈاکٹر صاحب نے کی ہے، وہ بس پڑھنے کے لائق ہے، لہذا ان کی ٹائم لائن سے استفادہ فرمائیں۔ دو اقتباسات یہ رہے:
** شہ نشین پر اردو پروفیسروں کی ایک کہکشاں براجمان تھی۔ شرکاء محفل ادب و احترام سے سب کو سن کر تالیاں بجا رہے تھے اور واہ واہ کا ورد بھی جاری تھا۔
** یہ انکشاف سن کر ہمیں حیرت ہوئی لیکن تعجب اس لیے نہیں ہوا کہ پروفیسر موصوف کا تعلق وارانسی سے ہے۔ جلسہ کے بعد وقفہ کے دوران چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے مجھے پروفیسر مقبول فاروقی دکھائی دیے۔ میں ادبی معاملات پر ان کی رائے لیا کرتا ہوں اور وہ صحت کے مسائل پر مجھ سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ خلوص کی شکل میں ہم اپنی اپنی مشورہ فیس وصول کر لیتے ہیں۔


سردار سلیم

ہمارے کالج کے زمانے میں نوجوان شاعر کہلائے جاتے تھے، بھولے سے پچھلے دنوں انہوں نے اپنی ٹائم لائن پر اپنے فرزند کی گریجویشن تکمیل پر ٹاپر میڈل حاصل ہونے والی تصویر لگا دی، لہذا اب نوجوان تو کیا جواں سال شاعر ہونے کا استحقاق بھی وہ کھو بیٹھے ہیں۔ آج سے کوئی بائیس تئیس سال قبل ان کے اولین شعری مجموعہ "راگ بدن" کی رسم اجرا تقریب میں تقریر کرتے ہوئے والد مرحوم رؤف خلش نے کہا تھا:
"سردار سلیم نے جب میدانِ شعر و ادب میں اپنا اشہبِ قلم دوڑایا تو خود شاعر کی زبان میں بعض لوگوں نے اس پر سرقاتِ شعری کی تہمتیں چسپاں کر دیں اس استدلال کے ساتھ کہ کسی متبدی میں ایسی ندرت اور فن پر ایسا عبور ہرگز نہیں ہو سکتا لیکن شاعر نے خود لکھا ہے کہ 'احقر نے بہتوں کو فی البدیہہ طبع آزمائی کے ذریعہ قائل کر دیا مگر بیشتر افراد اب بھی بدگمان ہیں'۔"
خیر یہ تو چوتھائی صدی قبل کی داستاں ہے، ہم تو آج بس اتنا جانتے ہیں کہ حیدرآباد میں جو چند مستند و معتبر استاد شاعر باقی رہ گئے ہیں، اس فہرست میں سردار سلیم کو بھی ہم بلاجھجھک شمار کرتے ہیں۔ لحاظ خاطر رہے کہ یہ سند وہ مکرم نیاز دے رہا ہے جسے یہ کہتے ہوئے بھی جھجھک نہیں ہوئی کہ چچاجان یوسف روش (مرحوم) کے چار ہزار مشاعروں کا کلام چھانٹ لیا جائے تو کوئی چالیس غزلیں کام کی نکلیں گی۔ ویسے سردار سلیم کو صرف نظم نہیں بلکہ نثر پر بھی یکساں دسترس حاصل ہے۔ وہ اردو اکیڈیمی تلنگانہ کے بچوں کے رسالے کی ادارت نبھا چکے ہیں، ماضی میں روزنامہ 'اعتماد' کے ادبی صفحہ کو نہ صرف مرتب کرتے رہے بلکہ اپنا ایک مخصوص طنزیہ مزاحیہ کالم بھی تحریر کرتے رہے ہیں جس کے تحت لکھا گیا قلی قطب شاہ پر ایک قسط وار فکاہیہ سلسلہ خاصا مقبول ہو چکا ہے۔ تو انہی سردار سلیم نے میک اپ زدہ نسائی شاعری پر نکتہ چیں ہوتے ہوئے کل ایک طنزیہ شہ پارہ "ہم غزل نہیں کہتے۔۔۔؟" کے زیر عنوان سپردِ قلم کیا۔ دو اقتباسات یہ رہے:
** ایک دور تھا! جب موزوں طبع نوجوان محفل میں بزرگ شعراء کے سامنے اپنا کلامِ موزوں سناتے ہوئے جھجھکتے تھے ۔۔۔ اب دنیا بدل گئی ہے، نقلیوں کی خود اعتمادی اصلیوں پر سبقت لے جا چکی ہے ۔۔۔
** شاعر اپنی شاعری میں واردات قلبی کو نظماتا ہے اور اسے یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ میرے دل پر اثر ہوا تو میں نے یہ شعر کہا۔۔۔ اور میں پورے دعوے سے یہ کہہ رہا ہوں کہ جن کا مزاج غنائیت سے نا آشنا ہے اور وہ اپنی ناموزوں طبیعت کے زیر اثر پابند وزن شاعری کی بجائے نثری نظم پر اکتفا کرتے ہیں انہیں یہ کہنے کا قطعی حق نہیں کہ "ہم غزل نہیں کہتے"
انھیں یوں کہنا چاہیے کہ " ہم غزل نہیں کہہ سکتے"


ڈاکٹر عمر بن حسن

نام اتنا بردبار پروقار ہے کہ عام قاری خواہ مخواہ دھوکہ کھا جاتا ہے کہ شاید فرحت اللہ بیگ یا محققِ اعظم حمیداللہ بھٹ سے موصوف کا نسبی تعلق ہوگا، مگر نہیں صاحب، یہ حیدرآبادی بساطِ ادب پر نووارد جواں سال طنز و مزاح نگار ہیں جو پیشہ کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر اور سرجن ہیں۔ بڑے اہتمام و احترام سے خود کو ڈاکٹر عابد معز کا شاگردِ رشید قرار دیتے ہیں اور یہ دعویٰ خود ان کی نمکین و تیکھی تحریروں کے حوالے سے جچتا بھی ہے۔ یہ سوشل میڈیا اردو میمز کے منظرنامے پر ڈوین جانسن کے یادگار کارٹون کلپس کے ذریعے اردو کے نام نہاد مجاہدین و مپھکرین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے وائرل ہوئے ہیں۔ ان کارٹونوں میں زبان ایسی استعمال کرتے ہیں جسے حیدرآباد میں "میٹھی چھری" کہا جاتا ہے۔ اور سرجن صاحب کی یہ چھری بھی اتفاقاً دو دھاری ہوتی ہے، جس سے بچنا نہ اردو کے کسی سالخوردہ مجاور کے لیے ممکن ہے اور نہ مجھ جیسے ڈھونڈورچی کو اس چھری سے استثنیٰ حاصل ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل یہ چھری میری بھی تکہ بوٹی کر چکی ہے۔ اور تو اور بہت عرصہ پہلے کلکتہ والے میرے ایک عزیز قلمکار دوست نے عمری تنقید کی یلغار پر چیں بہ چیں ہو کر خارپشت لہجہ میں پوچھا تھا: ابے کون ہے یار یہ تنقیدی ڈاکٹر؟ ہمارے ایک اور مولانا دوست و ادب کے ڈاکٹر بھی تنقیدِ عمر پر پچھلے دنوں خواہ مخواہ ناراض ہو بیٹھے۔ حالانکہ اردو تنقید کے بابائے آدم کلیم الدین احمد، ایلیٹ کا مشہور و معروف فقرہ "تنقید ہماری زندگی کے لیے اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی سانس" بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: "واقعہ یہ ہے کہ تنقید ایک فطری نعمت اور بیش بہا ودیعت ہے، اتنی ہی فطری اور بیش بہا جتنی کہ 'بینائی' یا 'گویائی' کی نعمت ہے بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔" تو صاحب لکھنے والے کو صرف تعریف پر چہکنا نہیں چاہیے بلکہ تنقید بھی اسی لَے میں جھیلنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔ ویسے بھی جھیلنے کے لیے ہمارے پاس تو ایک عدد بڑی موزوں و مناسب سی وجہ بھی ہے جو کہ اردو طنز و مزاح میں قوسین کے بادشاہ کے لقب سے معروف یوسف ناظم کے ایک شاہکار فکاہیے کا عنوان بھی ہے: ہم بھی شوہر ہیں!
تو ہمارے یہ جواں سال نوواردِ بساطِ ادبِ ظریف ڈاکٹر عمر بن حسن نے کل ایک اردو اخبار کے ادبی ایڈیشن کو نشانے پر رکھ لیا یا حیدرآبادی زبان میں کہیں تو "ادبی ایڈیشن اور اس کے مرتب کو ہاتھ پہ لے لیا"۔ مکمل مضمون بعنوان "مُنصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے" تو ان کی وال پر پڑھیے ۔۔۔ فی الحال یہاں صرف دو اقتباسات ۔۔۔
** اب لوگوں کو کون سمجھائے کہ ادب کوئی " اِس ہاتھ دے اور اُس ہاتھ لے" قِسم کا کاروبار نہیں ہے ۔ اخبار کی پالیسی اور دیگر تحدیدات کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے ۔ ادبی صفحہ کا مدیر کسی سیاسی جماعت کے رکن اسمبلی جیسا نہیں ہوتا کہ صرف ذاتی مفاد اور اقرباء پروری کے لئے وقف ہو جائے ۔
** معترضین یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام صفحہ ہی جب پاکستانی، اماراتی اور شمالی ہند کے قلمکاروں کی نذر ہو گیا تو حیدرآبادیوں کے لیے کیا بچا۔ یہ سوال ہی غلط ہے۔ حیدرآباد سے منصف شائع ہوتا ہے تو ضروری نہیں کہ حیدرآبادی قلمکاروں کو بلا ضرورتِ شعری صفحہ کی زینت بنایا جائے ۔ میرے خیال میں دکن میں اچھی اردو لکھنے والے ٹنُڈے کے کٹے ہاتھ کی انگلیوں پر بہ آسانی گنے جا سکتے ہیں۔ اگلے زمانے میں اچھے ادباء و شعراء رہے ہوں گے لیکن اب تو ادیبوں کا کال پڑا ہے۔ جو ہیں وہ اصغر بھائی کے قائم کردہ اعلیٰ معیار پر پورے نہیں اترتے۔


نوٹ:
تصویر کا کوئی تعلق تحریر سے نہیں ہے۔ یہ تو پبلک کو مطالعہ کے لیے ورغلانے کا فیس بکی ٹوٹکا ہے۔ ویسے یہ تصویر راقم نے کندیکل گیٹ فلائی اوور (چھتری ناکہ/لال دروازہ، پرانا شہر حیدرآباد) سے گزرتے ہوئے آج صبح لی ہے۔ کئی برسوں سے پاس پاس موجود یہ دونوں مندر مسجد کس بات کی گواہی دیتے ہیں، یہ سوچنے کا کام میں قارئین پر چھوڑتا ہوں!


The Three Musketeers of Hyderabad, Dr. Abid Moiz, Sardar Saleem and Dr. Omar Bin Hasan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں