رؤف خلش کی 83 ویں سالگرہ اور چوتھی برسی پر - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2024/01/04

رؤف خلش کی 83 ویں سالگرہ اور چوتھی برسی پر

raoof-khalish-all-letters

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
4/جنوری/2024ء
*****


رؤف خلش کی 83 ویں سالگرہ اور چوتھی برسی پر۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں کچھ خطوط۔


والد ماجد رؤف خلش (پیدائش: 4/جنوری 1941، وفات: 2/جنوری 2020) کا سعودی عرب میں بغرض ملازمت تقریباً پندرہ سال (1981 تا 1996) قیام رہا۔۔۔ اور وہ سوشل میڈیا تو دور انٹرنیٹ اور موبائل فون کا بھی زمانہ نہیں تھا۔ روابط کے ذرائع خط و کتابت سے ہی زیادہ منسلک تھے۔ ایک باپ دور رہتے ہوئے بھی اپنی اولاد کی تربیت کا فریضہ کس طرح نبھا سکتا ہے، یہ چار خطوط اس کی ایک چھوٹی سی مثال سمجھے جا سکتے ہیں، جو ہم چار بہن/بھائی کو 1980ء کی دہائی کے مختلف ایام میں لکھے گئے تھے۔
اخلاقی و مذہبی اصلاح ہو یا زبان و ادب کی رہنمائی یا سماجی/سیاسی ماحول سے آگاہی دینا ہو۔۔۔ ایک قلمکار باپ کی ذمہ داری کو آج کی انسٹنٹ مسیجنگ جنریشن شاید ہی محسوس کر سکے۔ آج وقت بدل گیا ہے، تربیت کا معیار اور پیمانے بھی بدل گئے ہیں مگر طریقے چاہے مختلف ہوں، مثبت اقدار سے جڑے رہنا یا جوڑے رکھنا ہر دور کی نسل کا فریضہ ہے۔
سہی/صحیح یا صفحہ/ورق یا عصرانہ/عشائیہ جیسی زبان کی تصحیح یا سبحان اللہ، الحمدللہ، جزاک اللہ یا استغفراللہ جیسے کلمات کا ورد، یا زبان/بولی کی خصوصیات کا ذکر ہو یا اخلاقیات کی تعلیم ہو ۔۔۔ درج ذیل خطوط کے اقتباسات یقیناً ہر دور میں کارآمد سمجھے جا سکتے ہیں۔


خط:1

تم نے لکھا ہے ووٹ ڈالنے کی "سہی" عمر تو 18 سال ہی ہے۔ بالکل درست ہے۔ لیکن تم نے لفظ "صحیح" کو "سہی" لکھ دیا۔ "سہی" کا لفظ دوسرے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے یوں ہی سہی، ایسا ہی سہی وغیرہ۔
تمہارا خیال بالکل درست ہے کہ مجلس مسلمانوں کی واحد پارٹی ہے جو اسمبلی میں مسلمانوں کے مسائل پیش کر سکتی ہے لیکن امیدواروں کے انتخاب میں احتیاط برتنا چاہیے تھا۔ "ک۔۔۔ س" کا ریکارڈ انتہائی خراب ہے۔ ہندو کو ہی لینا تھا تو کسی اچھے امیدوار کا انتخاب ہو سکتا تھا۔ ویسے آج کل سیاست بالکل گندی ہو گئی ہے، مرکز میں کانگریس نے اپنی چند کوتاہیوں کی بنا پر عوام کا اعتماد کھو دیا۔ جب کہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں اس نے شاندار کامیابی حاصل کی۔
تم نے کالج کے پروگرام کے سلسلہ میں 4 بجے سے شام 5 بجے تک دئے جانے والے کھانے کو "عشائیہ" لکھا ہے۔ اس وقت "عصرانہ" دیا جاتا ہے، شاید عجلت میں لکھ دیا۔ ایک اور ہلکی سی بھول کی طرف توجہ دلاؤں، میں نے "قافلہ" کا ڈائری سے انتخاب کے عنوان سے "صفحہ" نہیں بلکہ ورق بھیجا ہے۔ صفحہ ایک طرف کے حصہ کو کہتے ہیں۔ انگریزی میں PAGE کہلاتا ہے۔ ورق دونوں طرف کے حصوں کو کہا جاتا ہے، انگریزی میں جسے LEAF کہا جاتا ہے۔


خط:2

۔۔۔ انسان کو نفسانی خواہشوں کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے بلکہ اس شیطان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہیے۔ یہی شیطان انسان کو غصہ میں لاتا ہے۔ بڑوں کی نافرمانی سکھاتا ہے۔ گناہ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک دوسری صلاحیت بھی دی ہے اور وہ ہے اللہ کی بڑائی کا اعتراف، یہ جو پانچ وقت ہم نماز پڑھتے ہیں وہ دراصل اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں۔ ہمیشہ سبحان اللہ، جزاک اللہ، استغفراللہ، جیسے کلمات اپنی زبان سے ادا کرتے رہنا چاہیے۔
سبحان اللہ کا مطلب ہے ساری پاکیزگیاں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، جزاک اللہ کا مطلب ہے اللہ تمہارے ہر عمل کی جزا دے یعنی انعام دے۔ استغفراللہ کا مطلب ہے اللہ میری مغفرت کرے یعنی میرے گناہ معاف کرے۔
سبحان اللہ یا الحمدللہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی اچھی چیز نظر آئے یا محسوس ہو۔ جزاک اللہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی تمہارے ساتھ نیک سلوک کرے۔ استغفراللہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی غلطی ہو جائے، کوئی بری چیز نظر آئے یا جماہی آئے۔ جماہی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھ لینا چاہیے کیونکہ شیطان منہ میں گھس جاتا ہے۔ چھینک اچھی علامت ہے الحمدللہ کہنا چاہیے۔


خط:3

اس میں شک نہیں کہ "السلام علیکم" کے معنی ہیں تم تمام کو سلام اور "السلام علیک" کے معنی ہیں تجھ ایک کو سلام لیکن عموماً ایک آدمی کو بھی "السلام علیکم" ہی کہا جاتا ہے۔ یہاں سعودی عرب میں بھی عرب لوگ یہی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف تجھ ایک کو سلام بلکہ تیرے تمام متعلقین کو سلام یا ادب و عزت و احترام کے طور پر ہر شخص کو عرفِ عام میں "السلام علیکم" ہی کہا جاتا ہے۔ جس کے معنی یہ بھی نکلتے ہیں کہ آپ کی خدمت میں سلام۔ لہذا ایک فرد ہو یا بہت سے لوگ ہوں "السلام علیکم" کہنا صحیح و درست ہے۔
قواعد کے اعتبار سے جو معنی نکلتے ہیں، ضروری نہیں کہ بول چال یا لکھتے پڑھتے وقت بھی وہی الفاظ استعمال کیے جائیں۔ یہ ہر زبان کی خصوصیت ہے۔ اس لیے وہی زبان استعمال میں رہتی ہے جسے اس زبان کے بولنے والے رواج دینے لگیں۔ ویسے مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ تم نے زبانِ دوم کے طور پر عربی لی۔ یہ یقیناً بہت اچھی، میٹھی اور سائنٹفک زبان ہے۔ صرف ایک ایک حرف بدلنے سے فعل کی ضمیر بدلتی ہے۔ مثال کے طور پر "ی" لگانے سے میرے کے معنی ہو جاتے ہیں۔ یعنی رب کو ربّی کرو مطلب ہوا میرا رب۔ "ک" لگانے سے تیرے کے معنی ہوتے ہیں۔ یعنی رب کو ربّک کرو مطلب ہوا تیرا رب۔ بہرحال عربی کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اسی زبان میں قرآن نازل ہوا۔ یعنی اللہ نے اپنے رسول پر عربی میں کلام کیا ہے۔


خط:4

یہ پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ آپی تم سے لڑتی ہیں اور ایک دن تم سے بولیں کہ "تم پاس مت ہو"۔ ہم اس رسول کے نام لیوا ہیں جس نے گالیاں کھا کر لوگوں کو دعائیں دی ہیں۔ انسان غصہ میں یا اپنی ذات کی خاطر دوسروں کو یا اپنوں کو بددعا دے، خدا اس کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ خود کو اگر دوسرے کی کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس کو جتانا چاہیے، نصیحت کرنا چاہیے، نہ مانے تو یا خاموش ہو جانا چاہیے یا اتنا کہہ دینا کافی ہے: "اللہ تجھے نیک ہدایت دے!" بددعا کبھی نہ دینا چاہیے چاہے اپنا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ یہی ہے وہ اخلاق کا معیار جو ہمیں اسلام سکھاتا ہے۔


Few letters of Raoof Khalish on his 83rd birthday and 4th death anniversary.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں