ممتاز اردو بلاگر محمد وارث کا انتقال پرملال - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2023/12/30

ممتاز اردو بلاگر محمد وارث کا انتقال پرملال

Muhammad Waris

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
30/دسمبر/2023ء
*****


سوچا ہے اسد اب میں کسی سے نہ ملوں گا
کچھ دوست و عدو کی مجھے پہچان نہیں ہے
(محمد وارث اسدؔ)


اور یوں محمد وارث اب کسی سے نہ ملنے کی خاطر راہئ ملکِ عدم ہو گئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون


محمد وارث اسدؔ
پیدائش: 27/ دسمبر 1972ء (سیالکوٹ)
وفات: 15/ دسمبر 2023ء (سیالکوٹ)

دیکھتے ہی دیکھتے میری نظروں کے سامنے یکے بعد دیگرے وہ اردو دوست وداع ہوتے چلے گئے کہ جن کے ساتھ اردو سائبر دنیا کی زریں و خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر عنیقہ ناز (کیمسٹری پی۔ایچ۔ڈی اور اردو کی ممتاز بلاگر)، عبدالرحمان ناصر (اردو مجلس فورم کے جواں سال بانی و سرپرستِ اعلیٰ)، اکرام ناصر (اردو فورمز کی دنیا کے فعال نوجوان مراسلہ نگار و شاعر) کے بعد اب محمد وارث بھی دنیائے فانی سے وداع ہو گئے۔۔۔ كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ


سوشل میڈیا کا دور تو بس کوئی دس بارہ سال سے زیادہ پرانا نہیں جبکہ سن 2002ء سے انٹرنیٹ پر جب اردو یونیکوڈ کا آغاز ہوا تھا تب اکا دکا اردو ڈسکشن بورڈز (اردو فورمز) تصویر والی اردو سے تحریری اردو (یعنی یونیکوڈ اردو) میں تبدیل ہونا شروع ہوئے تھے جس کی شروعات "اردو محفل فورم" سے ہوئی۔ بعد ازاں تقریباً تمام ہی اردو فورمز تحریری اردو (یونیکوڈ اردو) میں تبدیل ہو گئے۔ اور اسی کے ساتھ اردو بلاگنگ کا آغاز ہوا جو 2008ء میں عروج کو پہنچا کہ متعدد معیاری لکھنے والے شعرا، ادیب و قلمکاروں نے گوگل کے بلاگنگ پلاٹ فارم 'بلاگ اسپاٹ' پر اپنا اپنا بلاگ تعمیر کیا اور اپنی منفرد تخلیقات کے سہارے سائبر دنیا کے سرچ انجنز میں اردو مواد کی مسلسل شمولیت کا فریضہ نبھانے لگے۔ راقم الحروف خود بھی کچھ مختلف قلمی ناموں سے اردو فورمز اور اردو بلاگنگ کی دنیا میں سن 2002ء سے ہی اپنی بھرپور شرکت درج کرتا رہا ہے۔


محمد وارث سے یوں تو اردو محفل اور چند دیگر اردو فورمز کے ذریعے واقفیت ہوئی تھی مگر جب انہوں نے اپنا ذاتی اردو بلاگ شروع کیا تب ان کا یہ بلاگ "صریرِ خامۂ وارث" بھی میرے ان چند منتخب بلاگوں کی فہرست میں شامل ہوا جن کا بلاناغہ مطالعہ میں اُس دور میں اپنا فریضہ سمجھتا تھا۔ ان کے بلاگ پر پہلی تحریر "دنیا کا پہلا فلسفی" کے عنوان سے ماہ مئی 2008ء میں شائع ہوئی تھی اور بلاگ کی آخری تحریر 9/ دسمبر 2020ء کو "صائب تبریزی کے کچھ متفرق اشعار" کے عنوان سے شائع ہوئی۔
محمد وارث ہر چند کہ مجھ سے چار برس کم عمر تھے، مگر ان کے موضوعات کا انتخاب اور ان کی تحریر کی پختگی نے ہمیشہ مجھ پر ان کا ایک خاص قسم کا علمی رعب طاری کر رکھا تھا۔ عمدہ اور اعلیٰ پائے کی شاعری سے میرا خصوصی شغف والد مرحوم کے حوالے سے میری جین میں شامل سہی مگر شاعری کی تکنیکی باریکیوں سے میں ہمیشہ خائف ہی رہا ہوں۔ جبکہ محمد وارث نہ صرف علمِ عروض اور تقطیع کے ماہر تھے بلکہ وہ فارسی شاعری میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے اور اسی باعث انہوں نے فارسی کلام کے متعدد اردو تراجم بھی اپنے بلاگ پر پیش کیے ہیں۔


چند برس قبل فیس بک پر جب وہ نظر آئے تو انہیں اپنی فرینڈز لسٹ میں شامل کرنے کا شرف حاصل کیا۔ ان-بکس میں مختصر سی گفتگو اردو محفل فورم کے حوالے سے ہوئی تو تھی مگر کبھی تفصیلی گفتگو کا موقع نہ مل سکا، جس کا افسوس مجھے تاعمر رہے گا۔
میرا دکھ تو خیر ایک ادب دوست کی حیثیت سے ہے لیکن ان کے حقیقی وارثین (اہلیہ اور دو فرزندان، ایک دختر) کے درد و غم کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اللہ کریم انہیں صبرِ جمیل سے نوازے کہ اتنی دور بیٹھ کر ہم جیسے لوگ صرف دعا ہی دے سکتے ہیں۔


مجھے ان کا ایک انشائیہ اکثر و بیشتر یاد آتا رہا ہے، انہیں خراجِ عقیدت کے بطور وہی انشائیہ (میں نے اپنی پہلی کتاب خریدی)، یہاں ان کے بلاگ کے حوالے سے پیش ہے۔
مگر اس سے قبل انہی کے بلاگ کے حوالے سے محمد وارث کا مختصر تعارف پیش ہے:


***
جائے پیدائش: سیالکوٹ
جائے رہائش: سیالکوٹ
تعلیم: ماسٹرز ان بزنس ایڈمینسٹریش (ایم بی اے)، 1996، لاہور۔ بی ایس سی، مرے کالج سیالکوٹ، 1994ء
پیشہ: پرائیوٹ نوکری (جنرل مینیجر ایکسپورٹس امپورٹس)۔
بچے:
محمد حسن وارث (تاریخ پیدائش: 24 اگست 2001ء)۔
محمد احسن وارث (تاریخ پیدائش: 30 اکتوبر 2003ء)۔
فاطمہ وارث (تاریخ پیدائش: 22 اکتوبر 2006ء)۔
___
مشاغل: مطالعہ، تحریر، تصنیف، موسیقی
پسندیدہ شاعر: فیضی، بیدل، غالب، اقبال
پسندیدہ مصنفین: برٹرنڈ رسل، ول ڈیورنٹ، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شبلی نعمانی، مشتاق احمد یوسفی
پسندیدہ گلوکاران: استاد فتح علی خان (پٹیالہ گھرانہ)، استاد نصرت فتح علی خان قوال، غلام علی، نورجہاں، مناڈے، ہیمنت کمار
***

انشائیہ: (تحریر کردہ: 2/ جون 2008ء) از: محمد وارث
"میں نے اپنی پہلی کتاب خریدی"

وہ بھی ایک عجیب دن تھا۔ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے گھر واپس آتے ہوئے نہ جانے جی میں کیا آئی کہ میں نے اپنی سائیکل کا رُخ اردو بازار کی طرف موڑ لیا۔
ان دنوں میں گیارھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور اپنے کالج کی لائبریری جب پہلی بار دیکھی تو دیکھتا ہی رہ گیا کہ دنیا میں ایک ہی جگہ اتنی کتابیں بھی ہوتی ہیں، ناول اور کہانیاں تو خیر میں بچپن سے ہی پڑھا کرتا تھا لیکن اردو ادب سے صحیح شناسائی کالج میں پہنچ کر ہوئی اور وہ بھی اتفاقاً۔ ہوا کچھ یوں کہ میرے ایک اسکول کے دوست، جو کالج میں بھی ساتھ ہی تھا، کی بڑی بہن کو کرنل محمد خان کی کتاب "بجنگ آمد" درکار تھی جو کہ انکے کالج کی لائبریری میں نہیں تھی، انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اپنے کالج میں پتا کرو، اور بھائی صاحب نے مجھے پکڑا کہ چلو لائبریری، خیر وہ کتاب مل گئی لیکن واپس کرنے سے پہلے میں نے بھی پڑھ ڈالی۔
اس کتاب کا پڑھنا تھا کہ بس گویا دبستان کھل گیا، اسکے بعد میں نے پہلے کرنل محمد خان کی اور بعد میں شفیق الرحمن کی تمام کتب لائبریری سے نکلوا کر پڑھ ڈالیں۔
خیر اردو بازار میں داخل ہوا تو ایک بُک اسٹور پر رک گیا اور کتابیں دیکھنے لگا، ایک کتاب نظر آئی "شناخت پریڈ"، یہ ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ہے اور شاید ان کی پہلی کتاب ہے، اسکی ورق گردانی کی تو اچھی لگی۔ میرے دل میں آیا کہ کتاب خریدنی چاہیئے لیکن ایک بڑا مسئلہ اسی وقت کھڑا ہو گیا، کتاب کی قیمت پچاس روپے تھی، سوچا پچاس لکھی ہوئی ہے شاید کم کر دیں، مالک سے بات کی، اس نے ایک دفعہ میرے چہرے کی طرف دیکھا اور دوسرے ہی لمحے کہا کہ اسکی قیمت کم نہیں ہو سکتی۔ مالک کی اس بے رحمانہ بات پر کیا کہہ سکتا تھا سوائے چپ رہنے کے۔ (خیر اب وہ مالک صاحب میرے اچھے خاصے شناسا ہیں اور تقریباً پچیس سے پنتیس فیصد رعایت بھی کر دیتے ہیں)۔
وہاں سے میں چلا تو آیا لیکن دل کتاب میں ہی اٹکا ہوا تھا، کافی دن اسی سوچ بچار میں گزارے کہ پچاس روپے کہاں سے لاؤں۔ ان دنوں میرا جیب خرچ پانچ روپے روزانہ تھا اور اگر دس دن پیسے جمع کرتا تو پچاس روپے جمع ہو جاتے اور کوشش بھی کی لیکن پیسے تھے کہ جمع ہو کر نہیں دیتے تھے (ویسے وہ اب بھی نہیں ہوتے)۔ بہت تیر مارا تو کچھ دنوں کے بعد میرے پاس پچیس روپے جمع ہو گئے لیکن اب بھی آدھی رقم کم تھی اور تمنا بیتاب۔
سوچ سوچ کر پاگل ہوتا رہا لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کتاب کیسے خریدوں کہ اللہ کی غیبی مدد پہنچ ہی گئی۔ ایک دن والد صاحب کی میز پر بیٹھا ہوا تھا کسی کام کیلیئے دراز کھولا تو اس میں ڈاک کے ٹکٹ نظر آئے اور ساتھ ہی ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ، میں نے سوچا اگر میں کچھ ڈاک ٹکٹ چرا لوں اور انہیں بیچ ڈالوں تو رقم مل جائے گی۔
پہلے تو ضمیر نے ملامت کیا کہ چوری بری چیز ہے لیکن پھر حضرتِ شیطان فوراً مدد کو آئے کہ کونسے برے کام کیلیئے چوری کرنی ہے، آخر کتاب ہی تو خریدنی ہے۔ میں نے پچیس روپے کے ڈاک ٹکٹ نکال لیے لیکن پھر خیال آیا کہ اپنے جمع کیئے ہوئے پیسے ضرور خرچ کرنے ہیں، اگر چوری کرنی ہی ہے تو پورے پیسوں کی کروں۔
سو نہایت ایمانداری سے گن کر پورے پچاس روپوں کے ڈاک ٹکٹ اٹھا لیئے، اب انہیں بیچنے کا مسئلہ درپیش تھا، اس وقت تو درکنار مجھے ابھی تک بھی کسی بھی چیز کو بیچنے کا تجربہ نہیں ہے لیکن شوق کے ہاتھوں مجبور تھا سو اسی وقت تیز تیز سائیکل چلاتا ہوا ڈاکخانے پہنچا، مجھے امید تھی کہ مجھے فوراً ہی رقم مل جائے گی لیکن ڈاکخانے میں بیٹھے کلرک نے مجھے سختی سے ڈانٹ دیا کہ یہاں یہ کام نہیں ہوتا۔ وہاں سے نامراد لوٹا تو اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اب کہاں جاؤں، کیا کروں۔
اسی سوچ بچار میں سائیکل چلا رہا تھا اور سڑک کے دونوں طرف دیکھتا بھی جا رہا تھا کہ کوئی ڈاکخانہ نظر آئے، بالآخر کچہری روڈ پر ایک چھوٹا سے ڈاکخانہ نظر آیا، وہاں گیا تو ایک جہاں دیدہ بلکہ گرم و سرد چشیدہ، گرگِ باراں دیدہ قسم کے بزرگ وہاں بیٹھے تھے، مدعا بیان کیا تو اپنی موٹے موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے سے مجھے گھورا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے لے لوں گا لیکن بیس روپے دونگا، میں نے التجا کی کہ جناب پچاس روپے کے ٹکٹ ہیں کچھ تو زیادہ عنایت فرمائیں، خیر وہ انکے پچیس روپے دینے پر راضی ہو گئے۔
ٹکٹیں چوری کرتے وقت میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ پچاس روپے پورے مل جائیں گے لیکن اس دن صحیح اندازہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں مجبوریاں کیسے خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ اب کل ملا کر میرے پاس پچاس روپے پورے تھے سو فوراً اردو بازار گیا اور چین اس وقت ملا جب "شناخت پریڈ" پڑھ ڈالی۔
یہ ایک معمولی واقعہ ہی سہی، لیکن آج بیس برس بعد بھی جب اس واقعے کے متعلق سوچتا ہوں تو افسوس بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی، افسوس تو ظاہر ہے کہ چوری کا ہوتا ہے اور خوشی اس بات کی اس دن جب سائیکل کا رخ اردو بازار کی طرف موڑا تھا تو بس میری زندگی کا اپنا رخ بھی ایک ایسی جانب مڑ گیا کہ اس کے آگے ایک بحرِ بیکراں تھا، اسکے بعد کتابیں خریدنے اور پڑھنے کی ایسی عادت پڑی کہ یہ مشغلہ شاید اب موت ہی مجھ سے چھڑا سکے۔


Urdu Blogger Muhammad Waris sad demise at the age of 51.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں