شاعروں کو خطابات تقسیم کرنے کا جو سلسلہ جاگیرداری عہد میں پایا جاتا تھا وہ اس جمہوری دور میں بھی باقی ہے۔ ایک حیثیت سے اس طریقہ کی ستائش ہونی چاہیے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ شاعروں کو اور خاص کر اردو زبان کے شاعروں کو زندگی کی دوسری مسرتیں بہت کم نصیب ہوتی ہیں، اس لئے اگر انہیں ایک آدھ چلتا سا خطاب دے دیا جائے تو کوئی عیب کن بات نہیں بلکہ بہت بڑا ثواب ہے۔
گذشتہ دنوں منڈی میر عالم مں جہاں آلو، میتھی، بیگن، پالک اور مرچی، ٹماٹر وغیرہ فروخت ہوتے ہیں، ایک محفل مشاعرہ منعقد ہوئی اور صدارت کے لیے جن صاحب کا انتخاب ہوا انہیں "شاعرِ دور بین" کا خطاب دیا گیا۔
واقعہ یہ ہے کہ ایک شاعر کو دوربین بنا دینا خطاب دینے والوں کے حد سے بڑھے ہوئے مذاقِ سلیم کا پتہ دیتا ہے اور ایسے خطابات پڑھ کر اردو کا مستقبل نہایت شاندار نظر آتا ہے۔
اس خطاب کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ اور خطابات بھی تراشے جا سکتے ہیں تاکہ آئندہ وقتِ ضرورت کام آئیں، مثلاً جب ایک صاحب شاعرِ دوربین بن چکے ہیں تو کسی دوسرے صاحب کو "دلنشین" کے خطاب سے نوازا جا سکتا ہے۔ اگر کسی شاعر کے کلام میں سختی و درشتی ہو تو اسے "شاعرِ مرمریں" کہنے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ اسی طرح جس شاعرہ کی شاعری گرمی و حرارت رکھتی ہو، اسے "شاعرہ آہ آتشیں" کہہ کر مخاطب کیا جا سکتا ہے!
ہمارے علم میں ایک ایسے شاعر صاحب بھی ہیں جن کے لیے "شاعرِ چناں و چنیں" کا خطاب انتہائی موزوں رہے گا، اگر وہ قبول کریں !!!
ماخوذ : شیشہ و تیشہ (کالم طنز و ظرافت) از کوہکن۔ بحوالہ: روزنامہ "سیاست" (حیدرآباد دکن، شمارہ: 4/نومبر 1959ء)
نوٹ:
اردو صحافت میں طنز و ظرافت کے کالم کی روایت زیادہ پرانی نہیں ہے۔ حیدرآباد کے ممتاز ادیب و شاعر شاہد صدیقی (پیدائش: 1911ء، آگرہ - وفات: 31/جولائی 1962ء، حیدرآباد)، روزنامہ "سیاست (حیدرآباد دکن)" میں بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں ایک ظریفانہ کالم بعنوان "شیشہ و تیشہ" لکھا کرتے تھے۔ ان کالموں کا ایک انتخاب، ان کے انتقال کے بعد اوائل 1964ء میں مجبتیٰ حسین نے مرتب کر کے کتابی شکل "شیشہ و تیشہ" میں شائع کروایا تھا۔
تلنگانہ کے نامور و مقبول باغی شاعر مخدوم محی الدین کہتے ہیں:
"شاہد کے ان کالموں کو پڑھنے کے بعد دل کی گدگدی ایک شائسہ مسکراہٹ اور ایک مہذب ہنسی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ شاہد کا طنز جانب دارانہ ہے، وہ مجبور کے حق میں جابر کے خلاف، حسن کے حق میں قبح کے خلاف، ترقی کے حق میں رجعت کے خلاف ہے۔
شاہد اپنی نظم اور نثر سے ایسی تصویر بناتا ہے کہ تحریر متحرک کارٹون معلوم ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں، اس کے طنز کا ہدف بھی چوٹ کا لطف لیے بغیر نہیں رہ سکتا (بشرطیکہ بدھو نہ ہو)۔ وہ ایک چابکدست کارٹونسٹ کی طرح اشاروں، کنایوں، فقروں، لفظوں اور سیدھی سادھی لکیروں سے وہ اثر چھوڑتا ہے جو ہزاروں اداریوں اور تقریروں پر بھاری ہے"۔
جگر مرادآبادی نے شاہد صدیقی کو ریاکاری اور تصنع سے پاک انسان قرار دیتے ہوئے انہیں نہایت شریف النفس ، مخلص ، خوددار اور وضعدار گردانا ہے اور ان کی شاعری کے حوالے سے جو باتیں لکھی ہیں، اس کا ایک اقتباس ہے ۔۔۔
"شاہد صدیقی کا سب سے بڑا کمال شاعری ہے ، جس کے لئے انھوں نے اپنی زندگی اور دماغی صلاحیت وقف کر رکھی تھی، یوں تو ان کا خمیر اسی خاک پاک سے تیار ہوا ہے جسے جغرافیہ اور تاریخ میں اکبر آباد یا آگرہ کہا جاتا ہے اور جس نے میر ، غالب اور سیماب کو جنم دیا لیکن 25 سالہ مشق سخن نے ان کی صلاحیت شعری میں ایسی پختگی اور موزونیت پیدا کر دی ہے ، جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوا کرتی ہے۔ موزوں طبیعت ، تخلیقی دماغ اور زندہ دلی نے ان کی شاعری کو زندہ شاعری بنا رکھا ہے، یہ نہ مبالغہ ہے نہ رنگ آمیزی بلکہ ایک حقیقت ہے جس کے گواہ ہزاروں لاکھوں دل و دماغ ہیں"۔
شاہد صدیقی کا ایک ضرب المثل شعر ایسا ہے جس میں نئی فکر ، نیا زاویۂ نگاہ اور نیا آفاق پیش کیا گیا ہے، جدید اردو شاعری میں اس کی مثال شاید ہی مل سکے ؎
ایک پل کے رُکنے سے دور ہو گئی منزل
صرف ہم نہیں چلتے راستے بھی چلتے ہیں
شاہد صدیقی کی کتاب ڈاؤن لوڈ کیجیے
شیشہ و تیشہ - شاہد صدیقی کے مزاحیہ کالم - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
انتخاب مع کمپوزنگ از: مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
9/جولائی/2025ء
*****
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں