جیلانی بانو اور واجدہ تبسم : مملکتِ قلبِ گداز کے سفیر - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2025/06/16

جیلانی بانو اور واجدہ تبسم : مملکتِ قلبِ گداز کے سفیر

"خطوط نویسی محبتوں اور اخلاص کا ایک علمی و ادبی مظہر ہے اور اخلاق کا تقاضا ہے کہ محبت و خلوص کا جواب محبت و خلوص سے ہی دیا جائے۔ خط و کتابت کرنے والے 'مملکتِ قلبِ گداز' کے سفیر ہوتے ہیں!"

دَور طالب علمی میں ایک دفعہ والد ماجد رؤف خلش (مرحوم) نے راقم الحروف کو جدہ سے اپنے ایک خط میں متذکرہ بالا فقرہ لکھا تھا۔ بیسویں صدی کی آٹھویں اور نویں دہائی میں 'قلمی دوستوں' سے خطوط نویسی کا رجحان مجھ سمیت بےشمار اردو قلمکاروں اور اردو دوستوں کے مزاج میں شامل رہا۔ اکیسویں صدی کے آغاز یا اس سے قبل غالباً انٹرنیٹ کے روز افزوں استعمال اور سوشل میڈیا کی آمد کے بعد سے خطوط نویسی اب بند ہو چکی۔


مشاہیر کے خطوط پر مبنی کچھ اردو کتابیں جو شائع ہو چکی ہیں ان میں حیدرآباد کی معروف و مقبول ادیب جیلانی بانو کی کتاب "دور کی آوازیں" (ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔ اشاعت: 2010 ، صفحات: 630) بھی شامل ہے۔ اس کتاب میں جیلانی بانو کے نام لکھے گئے تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد مشاہیر اور قارئینِ اردو کے نادر و دلچسپ خطوط شامل ہیں۔

جیلانی بانو کو حیدرآباد (دکن) میں ویسے ہی "بانو آپا" کہا جاتا ہے جیسے بانو قدسیہ کو پاکستان میں۔ اردو ادب میں نسائی فکشن کے حوالے سے بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں دو خواتین کا داخلہ ایک ساتھ ہوا تھا اور اتفاق سے دونوں کا تعلق سابق ریاست حیدرآباد دکن سے تھا۔ گوکہ جیلانی بانو (پیدائش: 14/جولائی 1936ء) کا آبائی تعلق بدایوں (اترپردیش) سے رہا ہے، وہ اردو کے مستند و معروف شاعر علامہ حیرت بدایونی کی دخترِ نیک اختر ہیں۔ دوسری فکشن نگار واجدہ تبسم (پیدائش: 16/مارچ 1935ء) ہیں جن کا تعلق اورنگ آباد دکن سے رہا۔

جیلانی بانو اور واجدہ تبسم دونوں نے (سابقہ شاہی ریاست) دکن کے معاشرتی مسائل پر اپنے قلم سے فکشن کے جوہر دکھائے تھے۔ ہر چند کہ دونوں کے اسلوب میں نمایاں فرق رہا۔ واجدہ تبسم نے مشرقی سماج میں عورت کے جنسی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کو اپنے بےباک قلم (بعضوں کے نزدیک 'عریاں قلم') سے اجاگر کرنے میں شہرت سمیٹی۔ "شمع" جیسے نیم ادبی رسالے میں واجدہ تبسم اور جیلانی بانو دونوں کے افسانے شائع ہوا کرتے تھے۔ ایک دفعہ شاید یہیں فیس بک پر بزرگ ادیب فاروق ارگلی نے کہا تھا کہ ستر/اسی کی دہائی میں اپنے قسطوار ناول کی اشاعت کے معاوضہ کے بطور واجدہ تبسم کو ہر قسط کے لیے تقریباً پچاس ہزار روپے ادارہ شمع پیشگی ادا کیا کرتا تھا۔ ہم نے اپنی طالب علمی کے دور میں سنا تھا کہ واجدہ تبسم اور جیلانی بانو کے درمیان اپنے مخصوص موضوعات اور اسلوب کے حوالے سے معاصرانہ چشمک بھی جاری رہی۔ مگر بہرحال جیلانی بانو کے نام 1958ء میں لکھے گئے واجدہ تبسم کے دو خط ظاہر کرتے ہیں کہ اپنے ادبی سفر کے ابتدائی زمانے میں دونوں کے درمیان محبت و اخلاص کا رشتہ قائم رہا تھا۔ واجدہ تبسم تو ممبئی میں 7/دسمبر 2011ء کو وفات پا گئیں۔ پدم شری جیلانی بانو الحمدللہ ابھی حیات ہیں۔

ذیل میں دونوں متذکرہ خط (بحوالہ کتاب "دور کی آوازیں") پیش ہیں۔


خط: 1 ، بتاریخ 29/ستمبر 1958ء

چاندنی۔۔۔

کل جلیس چلے گئے تو افروز نے بپھر کر پوچھا۔۔۔۔

"یہ پرچے کیوں رکھ لئے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ( ہائے میں افروز سے کس قدر ڈرتی ہوں۔۔۔)

میں نے بڑی معصومیت سے کہا۔۔۔۔ "یہ بانو کا ایک ہلکا سا روپ ہیں۔۔۔۔" 

اس نے اپنی لانبی لانبی انگلیوں کو گھما کر خاموش آواز سے کہا۔۔۔۔ "ہونہہ۔۔۔ نری پاگل لڑکی ہے۔۔۔۔!"

اب اچانک میرے دل میں بادل اتر آئے ہیں۔۔۔، (بادل جو برسات کے پیغامبر ہوتے ہیں۔۔۔ میں لاکھ بانو کی یادوں سے اپنے دل کے اندھیاروں کو روشن کروں لیکن ایک وقت تو آئے گا ہی جب وہ مجھے چھوڑ کر چلی جائے گی۔ تب سارے میں اندھیرے چھا جائیں گے۔۔۔۔ بی بی تم کن اجالوں کی متلاشی ہو؟ بولو۔۔۔۔

بولو۔۔۔۔ تمہیں اتنی سی بات نہیں معلوم کہ یہ زندگی جو ایک دوست کے دم سے اتنی چارمنگ اور گلیمرس ہوتی ہے۔ اس کی بدائی سے ایک دم بجھا ہوا چراغ بن جاتی ہے۔۔۔!!۔ ۔۔ آں۔۔۔؟

بانو بی بی یہ تمہارے چار پرچے ۔۔۔۔۔۔!

دل لخت لخت


تمہاری

وجو چاند


نوٹ:

جلیس: احمد جلیس، جیلانی بانو کے حقیقی بھائی

افروز: واجدہ تبسم کے شریک حیات

***


خط: 2 ، بتاریخ 22/اکتوبر 1958ء

بانو۔

خدا مہر (1) کو اچھا ہی رکھے گا۔۔۔۔ پریشانی کی کون بات ہے میری جان ۔۔۔۔ دیکھ لینا آجکل میں خیریت کا خط آتا ہی ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ تم سب بالکل مطمئن رہو۔ ہم سب دعائیں جو مانگا کرتے ہیں پوری ہونی ہی چاہئیں۔۔۔۔

ندیم بھائی اور سبط حسن بھیا کی گرفتاری کی خبر تو بہت پرانی ہو گئی۔ اور ان لوگوں پر یہ حادثہ نیا کب ہے۔۔۔؟ مجھے ان لوگوں کی گرفتاری پر اتنی خوشی ہوئی تھی کہ کیا کہوں۔۔۔ آخر یہی تو وہ لوگ ہیں جو زمانے سے ، اور مشکلوں سے (امریکی آقاؤں سے) ہار نہیں مان سکتے۔۔ نہیں مانتے۔ جانے "لیل و نہار" کا کیا بنے ۔۔۔۔

'صحیفہ' جلد ہی واپس کر دوں گی ۔۔۔ اس وقت خط جلدی میں لکھ رہی ہوں ۔۔۔ لیڈیز کے علاوہ جنٹس بھی اتنے آئے ہیں کہ گھر بھر کی کرسیاں ختم ہو گئی ۔۔۔۔ (دو چار لوگ تو کھڑے ہوئے ہیں۔۔۔)

اچھا گڑیا مہر کا خط آئے تو اطلاع دینا۔۔۔۔ میں ضرور آؤں گی، چندا فکرمند کیوں ہوتی ہو ۔۔۔۔ سب کو پیار۔

تمہاری

وجو


نوٹ:

مہر: مہر رحیم، جیلانی بانو کی چھوٹی بہن

ندیم بھائی: احمد ندیم قاسمی

سبط حسن بھیا: سید سبط حسن رضوی

لیل و نہار: پاکستان کا ایک باوقار ادبی جریدہ جس کے مدیران میں فیض احمد فیض اور سید سبط حسن شامل تھے۔


Two Letters from Wajida Tabassum to Jeelani Bano

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں