پروفیسر اختر الواسع اپنے ایک مضمون بعنوان "دینی مدارس: اسلامی تشخص کے امین" (شائع شدہ: روزنامہ 'اردو نیوز' جدہ، روشنی سپلیمنٹ، بروز جمعہ 21/نومبر 2008ء) میں لکھتے ہیں ۔۔۔
مدارس ہماری تہذیب و ثقافت کا جزو لازم رہے ہیں۔ تعلیم و تربیت کے مراکز کی حیثیت سے مدارس نے مسلم سماج میں ہمیشہ اہم رول ادا کیا ہے۔ یہ مدارس ہی تھے جہاں سے مسلم حکومتوں کو ان کی انتظامیہ کے لئے بہترین منتظم، فوج کے لیے کمانڈر اور عدالتوں کے لئے قاضی فراہم ہوتے تھے۔ مدارس میں تعلیم پانے والوں کو زندگی کے دیگر شعبوں مثلاً زراعت، تجارت اور صنعت وغیرہ میں جانے کے لیے بھی کسی اضافی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ گویا مدارس مسلم سماج کی سیاسی، اقتصادی، فوجی اور مذہبی تمام طرح کی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔ اپنی کسی بھی ضرورت کے لیے سماج کو کسی اور جانب دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، لیکن جدید دور تک پہنچتے پہنچتے صورت حال بدل گئی۔
یورپ میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں سماج کے اندر مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے کی جو روایت پڑی اس کے لامحالہ اثرات سے مسلم دنیا بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہی۔ ہندوستان کی سطح پر اسی دوران حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ خود اہل مذہب نے تعلیم کو قدیم و جدید کے خانوں میں بانٹ دیا، جو اسلام کے صحیح تصور سے میل نہیں کھاتا تھا۔
مسلمانوں میں قدیم وجدید کی جو تقسیم ہونی تھی، ہو کر رہی۔ ایک طرف سرسید نے ہندوستانی مسلمانوں کو زندگی کی دوڑ میں دیگر اقوام کے برابر لا کھڑا کرنے کی غرض سے مسلم دنیا میں جدید تعلیم کی پہلی درس گاہ کی بِنا رکھی تو دوسری جانب علمائے دیوبند نے قوم کے مذہبی تشخص کی حفاظت اور بقا کے لیئے دارالعلوم دیوبند قائم کیا۔
ہندوستان کی سطح پر مسلمانوں کے درمیان تعلیم کی جدید اور قدیم تقسیم کی یہ پہلی مثال تھی جو اس وقت کے حالات کا شاید تقاضا بھی تھی البتہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس دوران ڈیڑھ سو برس کے عرصے میں جانے کتنے طوفان آئے اور گزر گئے۔ حالات کیا سے کیا کچھ بدل گئے لیکن ہم ہیں کہ جو تعلیمی لائحہ عمل 1857ء کے فوراً بعد کے غلامی کے حالات کے لئے بنایا تھا 1947ء میں آزادی ملنے کے بعد کے حالات میں بھی ہم بحیثیت مجموعی اس پر از سر نو غور تک کرنے کے لئے تیار نہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ہندوستانی مسلم سماج کا اسلامی تشخص جیسا کچھ بھی قائم اور برقرار ہے اس میں ہمارے دینی مدارس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے!!
یہ بھی سچ نہیں کہ دینی تعلیم کے سمندر میں بالکل خاموشی ہی رہی ہے۔ انیسویں صدی عیسوی کی آخری دہائی سے ہی ایسی شخصیات اور ادارے وجود میں آتے رہے ہیں جن کی پھینکی ہوئی کنکریوں نے اس میں تموج پیدا کرنے کی کوشش کی۔
شبلی ہوں یا مولانا آزاد، ندوۃ العلماء سے لے کر جامعہ ہدایہ (جے پور) تک ایک سلسلہ ہے جس نے مذہبی تعلیم کو عصر حاضر کے تقاضوں کے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں ہندوستانی مسلم سماج کو مکمل کامیابی نہیں ملی یا بہت ہی محدود کامیابی ملی۔
علامہ شبلی نعمانی نے بہت پہلے ریاست حیدرآباد کے نظام سے یہ سفارش کی تھی:
"چوں کہ ریاست نظام ایک وسیع مملکت ہے اور اس وقت اس نے سرکاری نوکریوں کے لئے یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کی قید لازمی نہیں قرار دی اس لئے اس کو موقع ہے کہ موجودہ طریقہ تعلیم کے علاوہ ایک ایسا خاص سلسلہ تعلیم بھی قائم کرے جس میں انگریزی تعلیم کے ساتھ اسلامی علوم اور اسلامی تاریخ بھی شامل ہو اور جس کے تعلیم یافتہ گویا دونوں قسم کی تعلیم کا مجموعہ ہوں۔ اس قسم کی تعلیم کا انتظام دار العلوم (حیدرآباد) میں ہو سکتا ہے اور ہم کو موجودہ نصاب کے مرتب کرنے میں اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔"
( بحوالہ: شبلی ،ریاست حیدرآباد کی مشرقی یونیورسٹی، مقالات شبلی، جلد سوم، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ)۔
انیسویں صدی کے آخر میں اصلاح نصاب اور قدیم و جدید کی ہم آہنگی کے لئے جو تحریک چلی وہ ندوۃ العلماء کی تھی جس کے ایک روح رواں علامہ شبلی بھی تھے، لیکن وہ کتنی کامیاب رہی؟ مولانا آزاد سے سنئے:
"اگر اس مسئلہ (اصلاح نصاب) کو کسی انجمن نے پوری قوت کے ساتھ اٹھایا تو وہ ندوۃ العلماء تھا۔ ندوۃ العلماء کے مدرسہ کا قیام 1131 ہجری (1898ء) میں ہوا بلکہ اس کے بعد ندوۃ العلماء علم کی تحریکوں کا مرکز بن گیا اور آج بھی وہ بہت سے امتیازات رکھتا ہے۔ ندوۃ العلماء نے پوری قوت کے ساتھ یہ مسئلہ اٹھایا جس میں ارباب فہم حضرات موجود تھے جو اس مسئلہ کی گہرائی کو سمجھ سکتے تھے۔ ندوۃ ہے العلماء نے اپنا بنیادی مقصد اصلاح نصاب تعلیم قرار دیا تھا، مگر میں اس کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ اس کے مختلف وجوہ تھے کہ ندوۃ العلماء اس معاملہ میں قدم آگے نہ بڑھا سکا اور یہ گتھی سلجھ نہ سکی۔
(بحوالہ: مولانا آزاد، اسلامی علوم کی تعلیم میں زوال کے اسباب، اسلام اور عصر جدید)۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں