کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ معمہ عثماںؔ
عمر معلوم نہیں جاتی ہے یا آتی ہے
جینا بھی اس کے ساتھ ہے مرنا بھی اس کے ساتھ
دنیا قیام گاہ نہیں رہگزر تو ہے !
بالا اشعار سابق ریاست حیدرآباد کے آخری فرمانروا، نظام الملک آصف جاہ ہفتم میر عثمان علی خاں کے ہیں۔ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں نے اردو اور فارسی شعر و ادب کے میدان میں بھی اپنے قیمتی وقت کا کچھ حصہ صرف کیا تھا اور اپنی حیات میں ہی اپنے شعری کلام کی جمع و ترتیب کی خاطر ایک ٹرسٹ کا قیام عمل میں لایا تھا جس نے کئی سال کی محنت کے بعد پچیس تا تیس جلدوں میں آصف سابع کے کلام کو اکٹھا کیا۔ سنہ 1975ء میں ادارہ "سیاست" (حیدرآباد) نے اسی ٹرسٹ کے تعاون سے تقریباً ساڑھے تین سو (350) صفحات پر مشتمل "انتخابِ کلام آصف سابع" کے زیرعنوان کتاب کی اشاعت عمل میں لائی تھی۔
اس کتاب کے دیباچہ کے بطور علی گڑھ کے معروف و ممتاز ادیب رشید احمد صدیقی نے 40 قیمتی صفحات تحریر کیے، اور اسی دیباچے سے چند اہم اقتباسات ذیل میں پیش ہیں:
جنوبی ہند میں اردو شاعری کی پہلی لہر کا آغاز بہمنی دور میں ہوا اور دوسری لہر آصف جاہی خاندان کے ساتھ اٹھارویں صدی کے ربع اول میں پہنچی۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ولی دکنی اردو شاعری کا دِیا لےکر دہلی پہنچے جس سے وہاں بےشمار چراغ روشن ہوئے۔ آصف جاہ اول نے "محاورہ شاہجہاں آباد" جلو میں لےکر قدیم اردو کے باب الداخلہ 'اورنگ آباد' میں نزول فرمایا۔ اور یوں دکن اور شمال میں ادبی لین دین کا بازار گرم ہوا۔ اردو اپنے آصف جاہی روپ میں دکن کی قدیم اردو سے خاصی مختلف ہو چکی تھی، چنانچہ آصف جاہی خاندان کے تسلط اور حیدرآباد کو دارالسلطنت بنانے کے ساتھ ہی قدیم اور جدید اردو کی کشمکش کا آغاز ہوا۔
نظام الملک آصف جاہ ہفتم کا عہد اس اعتبار سے ممتاز ترین قرار پاتا ہے کہ اس میں اردو کو نہ صرف سرکاری اور علمی سطح پر وقعت نصیب ہوئی بلکہ آصف سابع کے دورِ حکومت میں حیدرآباد اردو شاعری اور ادیبوں کا بڑا اہم مرکز بن گیا۔ ملک بھر سے ادیب، شاعر، اور اہلِ کمال جوق در جوق حیدرآباد "اردو بنیاد" کی محفلوں میں آنے لگے۔ آصف سابع نہ صرف سخن فہم تھے بلکہ سنخداں بھی تھے جس کا ثبوت ان کی کلیات ہے۔ کلیات میں شامل ان کے کلام میں تشبیہ و استعارہ، محاورہ، روزمرہ زبان و بیان کے اعتبار سے اردو کے مستند و معروف غزل سرایوں کی بازگشت ملتی ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آصف سابع کا مطالعہ گہرا اور نظر وسیع تھی۔
زبان کی صحت، صفائی اور سلاست کا اہتمام ہر ترقی یافتہ زبان میں ملتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس کی ضرورت شاعری اور موسیقی کے لیے محسوس کی گئی جن کے حسن کا بہت کچھ مدار اس عمل پر ہے۔ اس کے بعد نثر میں بھی اس کا لحاظ رکھا جانے لگا۔ اردو شاعری کو جو نسبت عربی اور فارسی سے رہی ہے، اس سے کچھ کم دخل اس کی ابتدا، ارتقا اور عروج میں ہندوستان کے فلسفہ، مذہب، شعر و ادب، فنون لطیفہ، یہاں کی سرزمین، یہاں کے لوگ، ان کے رہن سہن اور روایات کو نہیں رہا ہے۔ اس طرح اردو کی ہئیت، مزاج، معیار اور نشو و نما میں جتنے اور جیسے عوامل دخیل رہے ہیں وہ کم زبانوں کے حصے میں آئے ہوں گے۔
ایشیائی شعر و ادب میں شاعری اور خطابت کا رنگ بالعموم نمایاں رہا ہے جس کا اہم سبب یہ ہے کہ اس کی ترقی کا زمانہ سلاطین کے درباروں بالعموم ان کے زوال کا زمانہ ہوتا ہے۔ درباروں اور حکومتوں کا زوال ان کی تہذیب اور شائستگی کے نقطۂ عروج سے شروع ہوتا ہے اس لیے اردو شعر و ادب میں تکلفات کا اہتمام زیادہ ملتا ہے۔ زبان کی صحت و صفائی کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ کلام میں فکر، جذبہ اور تخیل کا عنصر کم یا برائے نام ہو، تب بھی وہ محض حسنِ بیان کے اعتبار سے دل نشین ہو جاتا ہے اور کلام کا دلنشین ہونا، کلام اور صاحبِ کلام دونوں کا بڑا قابلِ قدر کارنامہ ہے۔
پچھلے کم و بیس ڈیڑھ سو سال میں اردو شعر و ادب نے جن مختلف تحریکوں، اداروں اور اکابر کے سہارے جیسی حیرت انگیز ترقی کی ہے وہ ہندوستان کی دوسری زبانوں یا شعر و ادب میں مشکل سے نظر آئے گی۔ اس ترقی کے شمالی ہند مرکزوں سے قطع نظر دکن سے فارسی اردو شعر و ادب کے عروج کا جو گہرا لسانی، تہذیبی رشتہ بہمنی سلطنت سے لے کر عہد آصفی تک رہا ہے اس کی مثال شمالی ہند میں باستثنائے چند حکمرانوں کے عہد کے، مشکل سے ملے گی۔ جس عالی حوصلگی اور وسعتِ نظر سے آصف سابع کے عہد، شاہی سرپرستی اور اکابر سلطنت کی تحریک و تعاون سے "عثمانیہ یونیورسٹی" وجود میں آئی اور ہندوستان کی علاقائی زبانوں میں ہمہ علاقائی زبان اردو کو یہ درجہ حاصل ہوا کہ آزادی، آسانی اور کامیابی سے اس زبان میں کم و بیش تیس (30) سال یونیورسٹی کی اعلیٰ سطح پر ہر مضمون اور فن کی تعلیم دی گئی اور اندرون و بیرون ملک کی معیاری یونیورسٹیوں نے اس کے فارغ التحصیل طلبا کو اپنایا، وہ ہندوستانی زبانوں کی تقدیر کا ایک روشن باب اور عظیم بشارت تھی۔ اس کے علاوہ "دائرۃ المعارف" کے اعلیٰ تحقیقی اور تاریخی کارناموں سے علوم اسلامی کو جیسا فروغ اور نشر و اشاعت نصیب ہوئی وہ بھی علوم مشرقیہ کی تاریخ میں کبھی بھلائی نہ جا سکے گی۔
آصف سابع نے اپنی عمر میں زمانے کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر اور خانوادۂ آصفیہ کے آخری فرمانروا میر عثمان علی خاں آصف جاہ سابع بیشتر لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت مماثل ہیں۔ یہ دونوں اپنی محرومی و بربادی دیکھنے کے لیے دیر تک زندہ رہے۔ ایک جلاوطنی میں اور دوسرا اپنی ہی بارگاہِ بام و در میں۔
شاید اسی لیے آصف جاہ سابع میر عثمان علی خاں نے اپنے آخری دور میں یہ قطعہ کہا ہوگا:
ستم کا دور رہا بار بار ہم پر بھی
نہ پوچھ کیسے تھے یہ روزگار ہم پر بھی
بتائیں کیا تمہیں قصے زمان ماضی کے
گزر چکے ہیں یہ لیل و نہار ہم پر بھی !!
اور کہا:
سابق کے رنگ ڈھنگ وہ عثماںؔ بدل گئے
منظر نئے نئے ہیں قرینے نئے نئے !!
*****
انتخاب مع کمپوزنگ از: مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
20/جولائی/2025ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں