تلنگانہ کے سوال پر کچھ ماہ قبل اس سیاسی جماعت کے تمام 11 ایم-ایل-اے ، ریاستی اسمبلی سے مستعفی ہو گئے تھے اور یوں ضمنی الیکشن کی راہ ہموار کی۔ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیرت کی بات یہ رہی ہے کہ اس ضمنی الیکشن میں دوبارہ اسی سیاسی جماعت نے غیر متوقع طور پر عظیم الشان کامیابی حاصل کی ہے۔ تفصیلات یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ نتائج علیحدہ تلنگانہ ریاست کی حمایت پر عوام کے رحجان کی نشاندہی کرتے ہیں۔
خیر جو بھی ہو ۔۔۔۔۔۔۔
فی الحال ہم اپنے شہر حیدرآباد کے ایک مقبول مزاح نگار شاعر جناب طالب خوندمیری کی ایک دلچسپ نظم شئر کرنا چاہتے ہیں ، جو کہ ساحر کی ایک مشہور نظم کی پیروڈی ہے :
سیاسی موڑ
رائے دہندہ اور امیدوار کے بیچ سمجھوتہ
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی اندیشہ رکھوں چالبازی کا
نہ تم دیکھو مجھے پھر "مطلبی انداز" نظروں سے
تمہارے نام سے گالی نہ آئے میرے ہونٹوں پر
نہ ظاہر ہو تمہارے مکر و فن کا راز نظروں سے
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوںتمہیں "خودغرضیاں" اکسا رہی ہیں پھر الیکشن پر
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ نیتا پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی نادانیاں ہیں ووٹ دینے کی
تمہارے ساتھ بھی تو کالے کرتوتوں کے سائے ہیں
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوںتُرپ چالوں سے نیتاؤں کی اب بیزار ہوں میں بھی
تمہیں بھی اب تھکن محسوس ہوتی ہے سیاست سے
مجھے بھی اب نہیں ہے شوق کوئی خود فریبی کا
تمہیں بھی کوئی دلچسپی نہیں جنتا کی خدمت سے
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوںیہی موقع ہے تم بھی ترک کر دو اپنی چالاکی
ادھر میں بھی بہلنا چھوڑ دوں رنگین خوابوں سے
بچھا سکتے نہیں تم بھی سمندر ریگزاروں میں
بجھا سکتا نہیں میں پیاس بھی اپنی سرابوں میں
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوںقیادت روگ بن جائے تو اس کو بھولنا بہتر
جو کرسی بوجھ بن جاتی ہے اس کو توڑنا اچھا
وزارت کامیابی سے اگر کرنا نہ ہو ممکن
اُسے کوئی "سیاسی موڑ" دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںآگر پاکستان میں علحیدہ صوبے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اسے کچھ لوگ ملک سے غداری کا نام دیتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںآپ کے بلاگ پر کچھ باہر کی خبریں بھی مل جاتیہیں
جواب دیںحذف کریںورنہ ہم اپنے وطن کی باتاں کرکرکے ہی خوش ہوتے رہتے ہیں
یہ خوشی بھی کیا خوشی ہے کہ روز کوئی نہ کوئی حادثہ ہو جاتا ہے
@ فرحان دانش
جواب دیںحذف کریںلوگوں کی زبان کو تو روکا جانا مشکل ہے۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ چھوٹے چھوٹے صوبے یا ریاستیں قائم ہو جائیں تو پھر وزیروں کی فوج ظفر موج وہ کھیل کھیلے گی کہ بندہ پھر سوچے کہ اس سے بہتر تو بڑا والا صوبہ ہی تھا۔
@ شازل
شکریہ جناب۔
ایک حادثہ کل بھی ہوا ہے جس کی خبر آج کے اخبار میں موجود ہے کہ ایک طالب علم نے نئی ریاست "تلنگانہ" کی حمایت کے مطالبے میں خودکشی کر لی اور اس وقت یونیورسٹی میں دوبارہ ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
حماقت کوئی ایک کرتا ہے اور بھگتنا سارے عوام کو پڑتا ہے۔
جن کی عام پاکستانی اور بھارتی لوگ تعريفيں کرتے نہيں تھکتے انہوں نے پچاس سے زيادہ رياستوں کو ملا کر ايک بہت بڑا ملک بنايا ليا اور ہم ہيں کہ چھوٹے چھوٹے صوبوں کو بھی ذاتی مفاد کيلئے توڑنا چاہتے ہيں تاکہ وزير مشير بن سکيں
جواب دیںحذف کریںکمال يہ ہے کہ امريکا ميں اتنے وزير نہيں ہيں جتنے ہمارے ملک پاکستان ميں ہيں اور پھر بھارت ميں
thanks for visiting my blog!!
جواب دیںحذف کریںyou are also doing a good jog
plz keep it up!