ہند و پاک مذاکرات : جانے کیا تو نے کہی ، جانے کیا میں نے سنی ! - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2010/07/28

ہند و پاک مذاکرات : جانے کیا تو نے کہی ، جانے کیا میں نے سنی !

ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں آپس میں کبھی اس قدر گھل مل جاتی ہیں کہ یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید دونوں ممالک ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہیں ۔۔۔ اور کبھی یکایک دونوں کے درمیان ایسی کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے کہ لگتا ہے اب صدیوں تک ہند - پاک تعلقات بحال نہیں ہو سکیں گے۔

تقریباً 30 برسوں کے بعد کسی ہندوستانی وزیر داخلہ نے پاکستانی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ یعنی اس وقت جبکہ ماہ جون-2010ء میں وزیر داخلۂ ہند مسٹر چدمبرم پاکستان گئے تھے۔ شری چدمبرم اور پاکستانی وزیر داخلہ جناب رحمٰن ملک کی گفتگو اس قدر کامیاب رہی تھی کہ لگتا تھا گویا ہند-پاک تعلقات کا ایک نیا دَور شروع ہونے والا ہے۔

لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی حال میں وزیر خارجہ ہند مسٹر ایس ایم کرشنا جب پاکستان تشریف لے گئے تو پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پریس کانفرنس کے دوران مسٹر کرشنا پر برس پڑے جس سے سارا بنا بنایا کھیل پھر سے بگڑ گیا۔
اور اب کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ ہندوپاک مذاکرات اب دوبارہ کب شروع ہوں گے؟؟

آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ کبھی دوستی اور کبھی دشمنی کا ماحول بن جاتا ہے؟
یعنی گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ ؟
کیا کبھی ہند و پاک کے درمیان امن قائم ہو سکے گا؟ یا اسی طرح دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف غصے کا اظہار کرتے رہیں گے ؟؟

وزرائے خارجہ کے مذاکرات کی ناکامی کے پیچھے کس "ویلن" کا ہاتھ ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ عین مذاکرات کے وقت ہندوستانی وزارت داخلہ کے سیکریٹری مسٹر پلائی نے "آئی ایس آئی" کے خلاف بیان داغ دیا۔
اور مسٹر کرشنا نے فرمایا :
"پلائی نے جان بوجھ کر ایسے وقت پر بیان جاری کیا تھا تاکہ پاکستان کے ساتھ بننے والی بات بگڑ جائے"
دوسرے الفاظ میں مسٹر کرشنا نے اس "حقیقت" کو قبول کر لیا ہے کہ ہند و پاک مذاکرات کے "ویلن" مسٹر پلائی ہیں !!

کیا اتنے اہم معاملے میں کسی "سیکریٹری" کی ایسی جراءت ہو سکتی ہے؟؟
مسٹر پلائی کسی معمولی وزارت کے نہیں بلکہ ہندوستان کی وزارت داخلہ کے سیکریٹری ہیں۔
یہ بات قطعاً بھولی نہیں جانی چاہئے کہ وزارت داخلہ آج سے نہیں بلکہ آزادی کے وقت سے ہی خود کو "ہندو مفاد" کا سرچشمہ سمجھتی ہے۔
سردار پٹیل ، ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ تھے اور وہ یہ پالیسی بنا گئے کہ :
وزارت داخلہ کو ہندوستان کے مفاد میں کام کرنا چاہئے !!
اس طرح وزارت داخلہ ہند کے خمیر میں دو باتیں ہندوستان کی آزادی کے وقت سے نظریاتی طور سے شامل ہو گئی ہیں :
1: ہند میں رہنے والا ہر ہندوستانی مسلمان ملک کا دشمن ہے
2: پڑوسی ملک پاکستان بھی ہندوستان کا دشمن ہے
لہذا وزارتِ داخلہ کو ان دونوں دشمنوں کے خلاف ہمیشہ سرگرم رہنا چاہئے۔

یہی سبب ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک ہندوستانی وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والا ہر فرد ، پولیس اور انٹلی جنس ایجنسیاں اپنا فرض سمجھتی ہیں کہ وہ پاکستان اور مسلمانِ ہند کے خلاف ہمیشہ سرگرم رہیں۔
ان حالات میں اگر مسٹر پلائی ، ہند و پاک مذاکرات میں رخنہ ڈال رہے ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔

رہی بات پاکستان کی۔
تو وہاں کی حالت بھی کچھ اسی طرح ہے۔ وزارتِ داخلہ پاکستان اور اس کی انٹلی جنس ایجنسی ( جو کہ اب "آئی ایس آئی" کی عرفیت سے مشہور ہے) قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ہندوؤں اور ہندوستان کو مسلمانوں اور پاکستان کا دشمن سمجھ رہی ہیں اور اپنا یہ فرض سمجھتی ہیں کہ ہند و پاک کے درمیان کبھی امن قائم نہ ہونے پائے !

ان تمام اختلافات اور نزاعات کے باوجود دونوں طرف سے کوشش یہی کی جا رہی ہے کہ آپسی بات چیت کے مزید دَور ہوں۔
دونوں طرف کے وزرائے اعظم اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ ہند و پاک کے درمیان امن قائم ہونے ہی میں دونوں ممالک کے عوام کا فائدہ ہے۔
اب آصف علی زرداری آئی ایس آئی سے کس طرح نمٹتے ہیں ، یہ ان کے ملک کا معاملہ ہے۔
لیکن ۔۔۔۔ وزیر اعظم ہند من موہن سنگھ کو یہ بات بخوبی سمجھ لینی چاہئے کہ وہ جب تک ہندوستانی وزارتِ داخلہ کو سنگھ پریوار کے حامیوں سے پاک نہیں کریں گے ، اس وقت تک ہند - پاک امن مذاکرات میں رخنے پیدا ہوتے رہیں گے۔


بشکریہ : کچھ تصرف کے ساتھ ، نامور دانشور صحافی ظفر آغا کے کالم سے ، بحوالہ - روزنامہ سیاست حیدرآباد (2010-07-25)۔

8 تبصرے:

  1. خیر سے کب جامد ہے آپ کی واپس ؟
    ائیر پورٹ پہ ہی "پھڑے" جانے کا پروگرام ہے کیا؟
    :D

    جواب دیںحذف کریں
  2. ڈفر بھیا
    یہ میرے خیالات تھوڑی ہیں
    ہند کے ایک نامور صحافی کا تجزیہ ہے۔
    جو بھگتنا ہے وہ حضرت ہی بھگتیں گے۔ اپن کا کیا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. ميں آپ کی مندرجہ بالا تحرير پر پہلی بار ابھی آيا ہوں ۔ اُوپر ميرے نام سے تبصرہ جو ہے وہ کسی اور نے ميرا ربط استعمال کر کے لکھا ہے ۔ اسلئے اُميد ہے کہ آپ اوپر والے تبصرے کو حذف کر ديں گے ۔

    جہاں تک پاک ہند مذاکرات کا تعلق ہے وہ بقول ايک پاکستانی صحافی مذاق رات ہوتے ہيں اور ميرے خيال ميں ٹوپی ڈرامہ سے بڑھ کر کچھ نہں ميں پچھلے ساٹھ سال سے ديکھ رہا ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  4. محترم اجمل انکل
    آپ کے کہنے پر تبصرہ حذف کر دیا ہے۔
    ویسے بھی مجھے اس تبصرہ پر اسلئے شک تھا کہ ایک تو غیرمتعلقہ بات تھی اور دوسرے تبصرہ کا لب و لہجہ آپ کی تحری سے قطعاً مماثلت نہیں رکھتا تھا۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. کچھ باتوں سے اختلاف کے باوجود تبصرہ اچھا لگا۔
    پاکستان ان دنوں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے مجھے امید ہے کہ ایک دن مضبوط پاکستان عالم اسلام کی ضمانت بن کر ابھرے گا

    جواب دیںحذف کریں
  6. اللہ کرے کہ پاکستان مضبوط مسلم ملک بن کر ابھرے ، آمین۔ یہ ہندوستانی مسلمانوں کے بھی دل کی آواز ہے۔
    البتہ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ "عالم اسلام کی ضمانت" ذرا مبالغہ آرائی ہے۔ عالم اسلام کی ضمانت "توحید" کا علمبردار کوئی ایسا ملک ہی بن سکتا ہے جہاں کوئی درگاہ نہ ہو عرس و اعراس یا فلاں فلاں فلاں بدعات کا زور نہ ہو۔ اور یہ چیز برصغیر کے "صوفیانہ" ماحول میں بڑا مشکل امر ہے!!

    جواب دیںحذف کریں
  7. آپ نے درست کہا ہے اس لیے میں اپنے الفاظ واپس لیتاہوں
    واقعی پاکستان وہ نہیں رہ گیا جیسا اسے ہونا چاہئے تھا۔

    جواب دیںحذف کریں