ایک زمانے میں ہم حیدرآباد کے جس محلہ میں رہتے تھے وہاں ہمارے گھر کے اطراف اتنی مسجدیں آباد تھیں اور اتنی پاس پاس واقع تھیں کہ افطار کے شروع ہونے اور سحری کے ختم ہونے کے وقت ہمارا گھر اچانک خوش الحان موذنوں کی اذانوں اور سائرنوں سے گونج اٹھتا تھا۔ ان اذانوں کے پس منظر میں ہم اپنے آپ ہی سحری کے لئے جاگ جاتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود بعض بےلوث اصحاب ایسے بھی ہوا کرتے تھے جو گھر گھر جا کر روزہ داروں کو سحری کے لئے جگانے کا نیک کام انجام دیا کرتے تھے۔
ایک صاحب ایسے بھی تھے جو اپنے ساتھ ایک لمبا بانس بھی رکھا کرتے تھے۔ "سحری کرو اٹھو" کے مخصوص نعرے کے علاوہ اس بانس کی مدد سے روزہ داروں کو سحری کیلئے جگایا کرتے تھے۔ ہم عموماً دیوان خانے میں سو جایا کرتے تھے جس کی کھڑکیاں کھلی رہتی تھیں۔ بسا اوقات وہ اس بانس کو کھڑکی کے اندر داخل کر دیتے تھے اور ہمارے پاؤں کو اس کے ذریعے کچوکے دیا کرتے تھے تاکہ ہم اچھی طرح جاگ جائیں۔ ظاہر ہے کہ ہم جاگ تو جاتے تھے لیکن اس پر بھی ان کے دل کو تشفی نہیں ہوتی تھی اور یوں گلی کے باقی ماندہ روزہ داروں کو جگانے کے بعد جب وہ واپس جانے لگتے تھے اور ہمارے بستر کو خالی پاتے تو دروازے پر دستک دے کر پوچھ لیا کرتے تھے کہ :
جناب ! آپ جاگ گئے ہیں یا جاگنے کے بعد اندر جا کر کسی اور بستر پر تو نہیں سو گئے ہیں؟
(اندازہ لگائیے کہ کتنے مردم شناس اور قیافہ شناس تھے !)
غرض ان دنوں ہر طرف رمضان ہی رمضان دکھائی دیتا تھا۔ جو روزہ نہیں رکھتا تھا وہ بھی احتراماً اپنی شکل ایسی بنائے رکھتا تھا کہ گویا بنا سحری کے روزہ رکھا ہوا ہے !!
بشکریہ : روزنامہ سیاست (2010-08-20) کے کالم "میرا کالم : مجتبیٰ حسین" سے۔
:)
جواب دیںحذف کریںDilchasp
اچھی اور دلچسپ تحریر ہے
جواب دیںحذف کریںویسے پنڈی بھی ایک بے ترتیب شہر ہے جس کی ہر گلی کے کئی اطراف مساجد ہیں۔ یہآں بھی سحر و افطار میں گویا فضا ازان سے گونج اٹحتی ہے۔۔
البتہ جو شہر اور کالونیاں پلاننگ سے بنائے گئے ہیں وہاں فقط ایک ہی ازان اور ہوٹر کی اواز اتی ہے
بہت دلچسپ تحریر ھے۔
جواب دیںحذف کریںبچپن کا پر سکوں وقت یاد دلا دیا۔
يہ پرانے وقتوں کی باتين ہيں ۔ اب دنيا ترقی کر گئی ہے ۔ لوگ اپنے کس معاملہ ميں کسی دوسرے کی مداخلت برداشت نہيں کرتے ۔ کچھ جو زيادہ ترقی کر گئے ہيں وہ تو اپنے والدين کی مداخلت بھی برداشت نہيں کرتے
جواب دیںحذف کریںدلچسپ، آج کل کہاں ہوتے ہیں؟
جواب دیںحذف کریں@ Abdullah ، بلاامتیاز ، یاسر خوامخواہ جاپانی
جواب دیںحذف کریںپسندیدگی کیلئے آپ تمام کا شکریہ.
@ افتخار اجمل بھوپال
جی بات تو پرانے وقتوں کی ہی ہے مگر اس خلوص و محبت کی ہے جو آج عنقا ہے. والدین کی مداخلت والی بات سمجھ میں نہیں آئی. ویسے کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ والدین جدید تکنولوجی سے ناواقفیت کے سبب کوئی غلط مشورہ دے دیں تو وہ ناگوار گزرتا ہے. مگر اسکے باوجود ہماری بچپن کی اسلامی تعلیم نے یہی سکھایا ہے کہ والدین کو ٹوکنے کے بجائے ناگواری کو برداشت کر لیا جائے.
@ کاشف نصیر
شکریہ. رمضان کا آخری دہا اور عید عموماً اپنے وطن حیدرآباد دکن میں گزرتی ہے.
اب تو عید مبارک ہی کہیں گے
جواب دیںحذف کریںسب کو عید کی خوشیاں مبارک ہو
دعاؤں میں یاد رکھیئے گا