صاحب ! ساحر لدھیانوی بھی کیا کمال کے شاعر تھے۔ ایک ہی قافیے میں جو الگ الگ کلام تخلیق کیا ۔۔۔ واہ واہ !!
گزشتہ سال ہمارے ایک دوست انٹرنیٹ چیٹنگ کے دوران صنفِ نرم و نازک کے دستِ حنا کی خوشبو سے جو متاثر ہوئے بس پاشا ۔۔۔۔ عشق کا دائرہ پھیلتا چلا گیا۔ اسی دوران انہوں نے ساحر کے یہ اشعار راقم کو ارسال کئے تھے۔
واقف ہوں خوب عشق کے طرزِ بیاں سے میں
کہہ دوں گا دل کی بات نظر کی زباں سے میں
میری وفا کا شوق سے تو امتحاں لے
گرزوں گے ترے عشق میں ہر امتحاں سے میں
اے حسنِ آشنا تیرے جلوؤں کی خیر ہو
بےگانہ ہو گیا ہوں غمِ دو جہاں سے میں
===
آج سال بھر بعد یہ وقت آیا ہے کہ وہ مجنوں بنے پھرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ : ظالم سماج درمیان ہے !!
تو بھائی پاشا ! ہم کئیکو خاموش بیٹھتے ، ہم نے بھی ساحر کا اسی زمین و قافیے والا کلام ان کی نذر کر کے پرانے قرض سے چھٹکارہ حاصل کر لیا ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں :
اب جاں بلب ہوں شدتِ دردِ نہاں سے میں
ایسے میں تجھ کو ڈھونڈ کے اب لاؤں کہاں سے میں
زمیں ہمدرد ہے میری ، نہ ہمدم آسماں مرا
ترا در چھوٹ گیا تو پھر ٹھکانہ ہے کہاں مرا
قسم ہے تجھ کو ، جذبۂ دل نہ جائے رائیگاں مرا
یہ ہی ہے امتحاں تیرا ، یہ ہی ہے امتحاں مرا
اک سمت محبت ہے ایک سمت زماں ہے
ایسے میں تجھ کو ڈھونڈ کے اب لاؤں کہاں سے میں
آواز دے رہا ہے دلِ خانماں خراب
سینے میں اضطراب ہے ، سانسوں میں پیچ و تاب
اے روحِ عشق ، جانِ وفا کچھ تو دے جواب
اب جاں بلب ہوں شدتِ دردِ نہاں سے میں
ایسے میں تجھ کو ڈھونڈ کے اب لاؤں کہاں سے میں
Author Details
Hyderabadi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں