پچھلے دنوں یہ خبر سرخیوں میں آئی کہ بہار حکومت کے محکمہ بہبودی کے ایک عہدیدار مسٹر وجے پرکاش نے ریاستی عوام کو چوہے کھانے کا مشورہ دیا ہے۔
بہار میں ہندوؤں کی نچلی ذاتوں میں سے ایک ذات "مساہر" ایسی بھی ہے جس کی روایتی تہذیب و تمدن میں چوہے کھانا شامل ہے۔ ریاست بہار کے بعض حصوں میں سڑک کنارے والی چھوٹی ہوٹلوں میں یہ "چوہے والی ڈش" جسے "پاتال بگیری" کا نام دیا گیا ہے بآسانی مل جاتی ہے۔ یہ "ڈش" تھائی لینڈ اور فرانس میں بھی مقبول بتائی جاتی ہے۔
بہار کے کسی حد تک خواندہ علاقوں میں عام طور پر چوہوں کو پلید جانور ہی سمجھا جاتا ہے لہذا اس سرکاری عہدیدار کا ایسا بےتکا مشورہ ان علاقوں میں ردّ کر دیا گیا ہے۔
ویسے بھی اس عہدیدار وجے پرکاش نے یہ مشورہ "مساہر" ذات کو ہی مدّنظر رکھ کر دیا ہے جو بہار کی سب سے نچلی ذات ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے غریب ترین قوم بھی ہے۔ وجے پرکاش کا کہنا ہے کہ اس مشورہ کے ساتھ وہ اس ذات کی غریبی کو دور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ باتیں مسٹر پرکاش نے بی۔بی۔سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی ہیں جو یہاں تفصیل سے پڑھی جا سکتی ہیں۔
جب اس خبر کو "اپنے انداز" میں پاکستانی آن لائن اخبارات نے شائع کیا تو ہمارے بعض قریبی پاکستانی دوستوں نے ہندوؤں کے خودساختہ "بھگوان" اور ان کی تہذیب و عقائد کو نشانہ بنا کر مذاق اڑانا شروع کر دیا اور بات یہاں تک چلی گئی کہ کہا گیا : یہ ہے دنیا کا ترقی یافتہ ملک انڈیا !
عرض خدمت ہے کہ ۔۔۔ ایک فرد کے بچکانہ اور احمقانہ مشورے کو ساری ہندو قوم سے منسوب کردیا جانا انصاف پسندی کے تقاضوں کے مغائر ہے۔ ہاں ، اگر اس مشورے پر ساری ہندو قوم اکھٹا ہوجاتی ہے تب اس قوم پر کئے جانے والے اعتراض کو معقول مانا جا سکتا ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کا بڑا مسئلہ ہے کہ جب انڈیا سے متعلق کسی بات کی کوئی وضاحت کرنے جاتے ہیں تو 'قومیت پسندی' کا طعنہ ملتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ بھارت کو ، بھارتیوں کو سپورٹ (support) کیا جا رہا ہے۔
حالانکہ ایسی قطعاً کوئی بات نہیں ہے۔
انڈیا میں مشہور داعئ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائک کے جب کبھی تبلیغی جلسے منعقد ہوتے ہیں ، یقین جانئے ہندوؤں کی بھی ایک کثیر تعداد شریک ہوتی ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر نائک تقریباً ہر تقریر میں ہندوؤں کے خودساختہ بھگوان اور ان کے عقائد کا ردّ کرتے ہیں۔ مگر جس حکمت عملی اور مضبوط دلائل سے کاٹتے ہیں وہ ہر کسی کو متاثر کرتا ہے۔
ہم نے مانا کہ پاکستان میں بھی کچھ لوگ غلطی کرتے ہیں تو پورا غیرمسلم میڈیا اس کا سارا نزلہ پاکستان اور اسلام پر اتارتا ہے۔ لیکن ۔۔۔ کیا جواباً مسلمانوں کا بھی یہی رویہ ہونا چاہئے؟ پھر ہمارے اور غیروں کے درمیان فرق ہی کیا رہ گیا اور وہ قرآنی حکم کہاں جائے گا جس میں فرمایا گیا ہے :
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ
اور ویسے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیروں کے خداؤں کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے۔
ہماری یہ گذارش ، اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ایک بہت اچھے پاکستانی دوست کی سمجھ میں آ گئی اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی یوں سنایا کہ :
جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے !!
Author Details
Hyderabadi
جانئے ہندوؤں کی بھی ایک کثیر تعداد شریک ہوتی ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر نائک تقریباً ہر تقریر میں ہندوؤں کے خودساختہ بھگوان اور ان کے عقائد کا ردّ کرتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںhindooan kee rawadaaree kee daad deejeeay. zara koi hindu saray-aam pakistan main islamee aqaeed ka rad kar kay dekhaay, usee waqt qatal kar diyya jai ga...tu phir konsa mazhab ziada behtar hua?
یہ نامعلوم نے ہندووں کی رواداری کیسے ثابت کر دی۔ ابھی گجرات میں مسلمانوں کا قتل بات پرانی نہیں ہوئی۔ دوسرے کشمیر میں بھی مسلمانوں کیساتھ سلوک بھی کیا رواداری ہے۔
جواب دیںحذف کریںبھائی میرا پاکستان۔ یہ نامعلوم صاحب یونہی اپنا "بےجا" دردرِ دل بتایا کرتے ہیں راقم کے بلاگ پر۔
جواب دیںحذف کریںورنہ انہیں شائد پتا نہیں کہ جس چیز کو وہ ہندوؤں کی "رواداری" کہہ رہے ہیں وہ دراصل "پشیمانی" اور اپنے مذہب کی خامیوں کا اعتراف ہے۔ ورنہ یہ رواداری ہوتی تو ہم برہمن اور ہریجن کو ایک ہی دسترخوان پر کھاتے کبھی دیکھ لیتے جو ہم نے آج تک کی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔
یہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںیہ رواداری ہوتی تو ہم برہمن اور ہریجن کو ایک ہی دسترخوان پر کھاتے کبھی دیکھ لیتے جو ہم نے آج تک کی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔
جواب دیںحذف کریںbhui aap qadiani kay saath aik dastarkhawan pay kha kay dekha dee jeeay
نامعلوم بھائی ! آپ کے کچھ تبصرے اس لئے حذف کئے گئے کہ یہ بلاگ مصنف کے قائم کردہ تبصرہ جاتی اصولوں کے خلاف تھے۔ آپ یہی باتیں اپنے بلاگ پر آرام سے لکھیں اور اس کا ربط یہاں دے دیں ، میں یقیناً آپ کے دئے گئے اس ربط کو حذف نہیں کروں گا۔ اس کا وعدہ ہے۔
جواب دیںحذف کریںآپ کے خیالات سے متفق ہوں۔
جواب دیںحذف کریںعزیر