داغ دہلوی کے حسب ذیل دو شعر تو اردو کے آج کے دورِ ابتلا میں بھی زباں زدِ خاص و عام ہیں :
اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اور
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
داغ نے جب اول الذکر شعر کہا تھا تو دوسرے مصرعہ میں آج کے "سارے جہاں" کے بجائے صرف "ہندوستاں" کو شامل رکھا تھا مگر پچھلی نصف صدی میں جب برطانیہ ، امریکہ اور خلیجی ممالک وغیرہ میں اردو کی نئی بستیاں آباد ہونے لگیں تو یاروں نے اس مصرعہ کو حسبِ حال بنانے کی خاطر "ہندوستاں" کو ہٹا کر "سارے جہاں" کو شامل کر لیا۔
بےشک داغ نے اپنے پُرتکلف مگر شوخ طرار اندازِ بیاں میں اردو شاعری کو حسن کی جن عشوہ طرازیوں ، چونچلوں ، چنچل اداؤں اور ناز و نخروں کے علاوہ عشق کی جولانیوں ، بےباکیوں بلکہ شوخ بےاعتدالیوں اور معصوم دست درازیوں سے روشناس کرایا تھا ، وہ انہی کا حصہ تھا۔ اور یقیناً اس کے باعث سارے ہندوستان میں اس زبان کی دھوم مچ گئی تھی۔
لیکن ۔۔۔۔۔۔
بےچارے داغ نہیں جانتے تھے کہ سو سوا سو سال کے بعد ہی اس ترقی یافتہ بےمثال زبان پر وہ وقت بھی آئے گا جب وہ دنیا میں پھیل تو جائے گی لیکن اس کی گہرائی اور گیرائی اُتھلے پن میں تبدیل ہو جائے گی۔
اس کے لفظوں کی تہہ داریاں سپاٹ ہو جائیں گی ، یہاں تک کہ ان لفظوں کے معنی ، املاء اور تلفظ تک بدل جائیں گے۔ نہ وہ عشق میں گرمیاں رہیں گی اور نہ وہ خم رہے گا زلفِ ایاز میں۔
ملاحظہ فرمائیے حال آج کی اردو کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
** اردو کے ایک ریسرچ اسکالر نے اپنی تعزیتی تقریر کا آغاز اس جملے سے کیا تھا :
"جب مجھے قاضی سلیم کے انتقال پرملال کی اطلاع ملی تو میرا دل بلیوں اچھل گیا "۔
** جلسہ کے اصل صدر کی آمد نہ ہونے پر کام چلاؤ صدر کو رکھا گیا ہی تھا کہ اصل صدر صاحب کی آمد ہو گئی۔ ناظم جلسہ نے مائیکرو فون پر عرض فرمایا :
" حضرات ! شومئ قسمت سے صدر محترم محفل میں آ چکے ہیں۔ میں عارضی صدرِ اجلاس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ کرسئ صدارت کو خالی کر دیں"۔
*** اردو کے بےمثال زخیرۂ الفاظ میں سے بہت سے لفظ غائب ہوتے جا رہے ہیں اور جو الفاظ بچ رہے ہیں ، اُن کا تلفظ یا تو بگاڑا جا رہا ہے یا اُن کی جنس تبدیل کی جا رہی ہے۔ محاورہ کی ٹانگیں توڑی جا رہی ہیں اور لفظوں کے معنی بدلے جا رہے ہیں۔
آئے دن اردو اخبارات میں کچھ یوں پڑھا جاتا ہے ۔۔۔۔
کتاب کا رسمِ اجراء
کتاب کی اجراء
بات چیت کا پیش کش
حیدرآباد کی عوام
اپوزیشن کی جانب سے حکومت کی پُرزور خلافت
ہمارے ساتھی بلاگر اردو داں نے کچھ مزید یہاں بھی عرض کیا تھا۔
اور یوں وہ اردو زبان جو داغ کے زمانہ اور خود ان کے فن میں آتے آتے آ گئی تھی اب جاتے جانے کے سفر پر روانہ ہوتی ہوئی دکھائی دینے لگی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اردو ہے جس کا نام 'نہیں' جانتے تھے داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
' کہ جاتی ہے اردو زباں جاتے جاتے '
بشکریہ : کچھ تصرف کے ساتھ ، روزنامہ سیاست (2010-07-11) کے کالم "میرا کالم : مجتبیٰ حسین" سے۔
ویسے پاکستان کے اخباروں اور عام اردو کی ابھی ایسی حالت نہیں ہوئی
جواب دیںحذف کریںلیکن جب لطیفے ملتے ہیں تو مذکورہ لطیفوں سے بہت ہی اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں
:D
gazal ne hindi, gujrathi aur marathi walooN ko apni janib kheencha hai. agar amle main kuch tabdeeli laii jauy tu phir urdu ka marna mahal hai.
جواب دیںحذف کریںاُردو کے گھر ميں اردو کی يہ حالت ديکھ کر افسوس ہوا ۔ ہمارے ہاں بھی لوگ اُردو کا حُليہ بگاڑنے ميں مصروف ہيں کچھ نے انگريزی ملا کر کچھ نے پنجابی کا کوئی فلمی لفظ يا جملہ ملا کر اور کچھ نے اپنے علم کا جنازہ نکال کر اردو کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کا تہيہ کر رکھا ہے
جواب دیںحذف کریںجناب يہ اردو دان صاحب آجکل کہاں ہين کيا ماشاء اللہ بہت بال بچے ہو گئے ہيں جو فرصت نہيں پاتے ؟
جواب دیںحذف کریں