لیبیا اور معمر قذافی - ایک مختلف نقطۂ نظر - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2011/04/20

لیبیا اور معمر قذافی - ایک مختلف نقطۂ نظر

لیبیا اور لیبیا کے قائد کرنل معمر قذافی کے متعلق آج تک میڈیا کے ذریعے جتنا کچھ پڑھتے آئے ہیں ، اکثر اوقات یہی لگتا ہے کہ کہیں یہ سب یکطرفہ تو نہیں؟ کیونکہ آجکل میڈیا پر جن قوتوں کا قبضہ ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ تیونس اور مصر کے حالات کو لے کر اس عوامی بغاوت کی "تھیوری" کو میڈیا نے سعودی عرب پر بھی منطبق کرنے کی جو مذموم کوشش کی تھی اسکے متعلق جاننے والے جانتے ہیں یہ سوائے پروپگنڈہ بازی کے اور کچھ نہیں!

پچھلے دنوں حیدرآباد کی ایک خاتون (پروفیسر سیدہ فاطمہ منزلت) ، جو پیشہ کے لحاظ سے تدریس کے میدان سے وابستہ ہیں اور لیبیا کی ایک جامعہ میں کوئی تین سال سے باٹنی پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں ، نے لیبیا کے متعلق اپنے تاثرات سے نوازا۔
مکمل مضمون روزنامہ منصف (17 اپریل 2011) میں یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
کچھ اقتباسات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مصراتہ یونیورسٹی پر جب میرا تقرر ہوا تو میں قدرے پریشان تھی کہ میں اور میری دس سالہ لڑکی اس صحرا میں کیسے تنہا رہیں گے؟ لیکن جب میں لیبیا پہنچی تو مجھے ہر آنے والے لمحہ میں اطمینان اور سکون کا احساس ہونے لگا کیونکہ یہاں کے لوگ نہایت خوش خلق ، ملنسار ، قول و فعل کے سچے اور پابند عہد نظر آئے۔

لیبیا میں تھیٹر نہیں ہیں۔ یہاں مغربی اشیاء کی کوئی دکان نہیں۔ میکڈونالڈ وغیرہ ریسٹورنٹس بھی نہیں ہیں۔ یہاں عربی جامعات بہت ہیں۔ یہاں کے لوگ انگریزی سے نفرت کرتے ہیں مگر ضرورتاً سیکھنا چاہتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ کوئی باجے گاجے ، دھوم دھڑاکا نہیں ، پرسکون فضائیں۔ صرف زیتون ، کھجور ، انجیر ، سنگترہ کے درخت کافی بڑے اور بکثرت ہوتے ہیں۔
نہایت شریف النفس ، عبادت گزار ، ہمدرد بااخلاق لوگ۔ یہاں پر جنسی دست درازی کا کوئی واقعہ نہیں ہوتا اور نہ ہی چوری و ڈاکہ۔ خواتین سے چھیڑ چھاڑ کے واقعات دیکھنے میں تو کیا سننے میں بھی نہیں آتے۔
یہاں کے لوگوں کو تنخواہیں بہت کم ملتی ہیں لیکن وہ اپنے قائد کو بہت چاہتے ہیں ، ان کا نعرہ ہے : " اللہ معمر لیبیا "

بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں، آپس میں رنجش ہوتی ہے تو فوراً صلح صفائی کر لیتے ہیں۔ دفتری پالیٹکس ، کسی کو گرانا ، کسی کو اٹھانا وغیرہ کی کوئی بات نہیں۔ لگتا ہے یہاں کے مسلمان اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ اپنی اسٹوڈنٹس کو دیکھتی ہوں تو وہ ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتی رہتی ہیں ، دوسروں کے جذبات کا بہت خیال کرتی ہیں۔

ان سادہ لوح مخلص و ملنسار لوگوں کے درمیان جو بغاوت ہوئی ہے ، لیبیا کے عام شہریوں کا خیال ہے کہ ان کے کچھ لالچی افراد سے مل کر یہودیوں اور عیسائیوں نے یہ سازش رچی ہے ورنہ حقیقی لیبیائی عوام اپنے قائد کے خلاف نہیں ہو سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ معمر قذافی اپنی عمدہ صلاحیتوں کی وجہ سے چالیس سال سے اقتدار پر برقرار ہیں۔ عوام قذافی سے بہت محبت کرتے ہیں۔ پتہ نہیں لیبیا کے سکون کو کس کی نظر لگ گئی؟
عوام اپنے قائد کیلئے جان توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ لیبیا شرافت و پاکیزگی کا گہوارہ ہے۔ آجکل وہاں کے عوام کے لبوں پر یہ الفاظ ہیں :
" يا قائد۔ امانة وحدک۔ کل حب ووفاء۔ "
" ممک بل روح بل دم "

اللہ تعالیٰ ان کو فتح و کامرانی عطا فرمائے (آمین)۔

---
گو کہ یہ فردِ واحد کے تاثرات ہیں جسے لیبیا کی مجموعی صورتحال کا فیصلہ کن جائزہ تو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مگر یہ تاثرات قابل غور اسلئے ہیں کہ تحریر کنندہ نے اس ملک میں رہ بس کر ذاتی طور سے جو کچھ مشاہدہ کیا اسے بیان کیا ہے۔

3 تبصرے:

  1. جناب۔۔۔ یہی تو مسئلہ ہے ہمارے ساتھ کہ ہمیں جو میڈیا دیکھاتا ہے، اسی کو مان لیتے ہیں۔۔۔ یہ جاننے کے باوجود کہ میڈیا کی اکثریت یکطرفہ سوچ دکھاتی ہے نا کہ انصاف سے کام لے۔۔۔

    چالیس سال لیبیا کی عوام نے معمر قذافی کی حکومت میں گزار دیے۔۔۔ یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ اچانک ہی تیونس اور مصر کے بعد لیبیا کو اپنا حاکم برا کیسے لگنے لگ گیا۔۔۔؟ کوئی منطق تو ہو نا؟؟؟

    جواب دیںحذف کریں
  2. ميں سیدہ فاطمہ منزلت صاحبہ کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے حقيقت کو اخبار تک پہنجچايا ۔ ميں مئی 1976ء سے جنوری 1983ء تک لبيا ميں بطور ايڈوائزر اور آنريری چيف کوآردڈينيٹر رہا ۔ ميرا رابطہ اعلٰی عہديداروں سے لے کر عام آدمی تک ہوتا تھا ۔ ميں نے اُن لوگوں کو ہند و پاکستان کے لوگوں سے بہت بہتر پايا ۔ سب سے بڑی خوبی اُن کی بلادھڑک سچ بولنا تھی ۔ بُغز و حسد نام کو نہ تھا ۔ ميں نے لگ بھگ سارا لبيا گھوما اور ہر جگہ کے لوگوں کو اپنا ہمدرد اور بھائی پايا ۔ جب بھی مدد کی ضرورت ہوئی جو بھی سامنے تھا اُس نے بھرپور مدد کی ۔ يہاں تک کہ لڑکيوں اور عورتوں نے بھی ۔ ہمارے ہند و پاکستان کے لوگوں کی اکثريت صرف تنقيد کرنا جاتی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. عراق کی طرح یہ نیو ورلڈ آڈر کی نئی قسط ہے۔ جسکا فوری مقصد مسلمانوں کے تیل جیسے قیمتی وسائل پہ قبضہ کرنا ہے۔ یہ صلیبی جنگوں کی نئی شکل ہے۔ وہی طیقے ۔ وہی خانہ خرابیاں، غداریاں، خرید کردہ امیر۔

    آج مغرب لیبیا کے جن ہتیاروں کو تباہ کر رہا ہے ۔ انھیں قذافی کو دوہزار نو تک بیچتا رہا ہے۔ انقلاب بمباری اور توپ تلوار کے بوتے پہ نہیں آیا کرتے۔

    جواب دیںحذف کریں