پھر پسر صاحبِ میراثِ پدر کیوں کر ہو ؟ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2011/04/10

پھر پسر صاحبِ میراثِ پدر کیوں کر ہو ؟

علم اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین صفت ہے اور یہی صفت اللہ نے انسان کو بھی عطا کی ہے۔ تعلیم نامعلوم سے معلوم کو عملاً حاصل کرنے کا نام ہے۔ تعلیم باہر سے کسی شئے کو انسان کے اندر داخل کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ ودیعت کردہ علم کو ماہرین کے ذریعے اپنے اندر سے باہر لانے اور پھر اس کو دوسروں تک پہنچاتے رہنے کا نام ہے اور یہی کمال انسانی ہے۔

کالجوں کی تعلیم کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بچے پڑھ کر سند تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان کی تربیت کا اہتمام کالجوں میں نہیں ہوتا کیونکہ اکثر اساتذہ میں اخلاق کا فقدان ہے۔ اپنے طلباء کے ساتھ شراب پینے اور جوا کھیلنے کو وہ عیب نہیں سمجھتے۔ گلے میں ہاتھ ڈال کر سگریٹ کے مرغولے اڑاتے پھرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ان میں ذمہ داری اور بڑے پن کا کوئی احساس باقی نہیں رہا ہے۔
ماضی کا استاد باپ برابر مانا جاتا تھا اور آج دوست برابر ہو کر شانہ بہ شانہ چلنے لگا ہے۔ آج اکثر اساتذہ کو اپنی ملازمت میں ترقی اور جوڑ توڑ سے فرصت نہیں ملتی تو طلباء میں اعلیٰ سماجی اقدار ، ادب و تہذیب اور اخلاق و کردار کا احساس کس طرح دلا سکتے ہیں؟ وہ خود کو طلباء کا نگران نہیں سمجھتے اور نہ ہی موجودہ نصاب میں ایمان ، اخلاق و کردار کو سنوارنے ، آدمی کو انسان بنانے ، دردمندی کا احساس دلانے اور قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کا کوئی نظام موجود ہے ، آج وہ استاد ہی کہاں جو کبھی پڑھایا کرتے تھے :

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کم نہ تھے کر و بیاں

اور علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) کا یہ شعر سمجھنے اور سمجھانے والا کہاں؟

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر صاحبِ میراثِ پدر کیوں کر ہو

خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ تعلیم میں کج بحثی اور طاقت گفتار کو تیز کر دیا گیا ہے لیکن جہاں تک دل و روح کا معاملہ ہے کمالاتِ علم سے بالکل خالی ہے۔
روح و قلب کی پاکیزگی سے اور علم کے عرفان سے جو وجدان حاصل ہوتا ہے وہ ہمارے آج کے کالجوں اور جامعات میں مفقود ہے۔ آج اسکی تعلیم و تربیت نہیں ہے۔ جب تعلیم نہیں اور تربیت بھی نہیں تو ایسے ماحول میں صرف تعلیم سے انسانیت اور اخلاقیات پیدا نہیں ہوتے۔
ہمارے طلباء ہوں کہ نام نہاد رہنما یا سیاست داں ، ان میں چند تعلیم یافتہ تو ہیں مگر تربیت یافتہ ہرگز نہیں ہیں۔
ماہر تعلیم خواجہ غلام السیدین کہتے ہیں :
تعلیم کی توجہ تین قسم کے علوم کی جانب تھی۔
ایک : وہ جو طلباء کو حصول معاش اور ضروریات زندگی کے لئے تیار کرتے تھے۔
دوسرے : وہ جن کی عقل اور ذہنی تربیت میں معاون ہوتے تھے
اور تیسرے : وہ جو اخلاقی تربیت اور سیرت کی تشکیل میں مدد دیتے تھے۔

اسمبلی ہو کہ پارلیمنٹ ہمارے اکثر و بیشتر ارکان تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ ان کا رویہ ، طرز گفتگو ، گندی زبان کا استعمال اور دیگر دلخراش واقعات سے یہ بات بالکل صاف ہے کہ ان کا ذہن مجرمانہ بن گیا ہے ، انہیں بابائے قوم گاندھی جی کے اس دلنواز قول سے کوئی سروکار نہیں کہ :
تعلیم وہی خوب ہے جس میں مذہبی قوت کارفرما ہو۔

دنیا میں جتنے انبیاء ، دانشور ، فلسفی ، رہنما اور صالحین آئے ان کا مقصد روح و قلب کی پاکیزگی تھا۔ آج کے رہنما ، لیڈر اور سیاست دانوں کے قلب میں نہ سوز ہے اور نہ روح میں کوئی احساس ہے اور نہ ہی ان کو کسی مرد صالح کے کسی پیغام کی پرواہ ہے۔

ایسے ہی ناشکرگزار بندوں کیلئے شاعر نے بجا کہا کہ :
ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو


***
بشکریہ : روزنامہ منصف (2011-03-31) کے مضمون "بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو : محمد عباس انصاری سکندر" سے۔

1 تبصرہ:

  1. عصرِ حاضر کی ايک اہم لغزش کی طرف توجہ دلائی ہے آپ نے ۔ اس ناسور کو وہ لوگ آزادی کہتے ہيں

    جواب دیںحذف کریں