سر پہ لال ٹوپی روسی ۔۔۔۔ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2011/04/09

سر پہ لال ٹوپی روسی ۔۔۔۔


اردو زبان میں ٹوپی ، پگڑی اور دستار کی خاصی اہمیت ہے۔ ٹوپی ڈالنا ، پگڑی اچھالنا ، دستار اتارنا ، دھوکہ دینا ، بےعزت کرنا ، افسوس ظاہر کرنا جیسے محاورے شامل ہیں۔
حیدرآباد میں سالار جنگ ڈیوڑھی کے سامنے ٹوپیوں کا بڑا بازار تھا اور انگریزی میں "کیپ مارٹ" کہلاتا تھا۔ اب یہاں صرف شادی کا سامان جیسے مچھردان ، تکیے وغیرہ بکتے ہیں۔ دستار بنانے والے اور رومی ٹوپی بنانے والے کہیں نہیں رہے۔
اگر ہم مغربی ممالک کی تصویریں دیکھیں تو آپ کو سر پر ٹوپیاں نہیں ملیں گی۔ دیگر ممالک میں بالوں والی ٹوپیاں مل جاتی ہیں مگر گاندھی ٹوپی ، رامپوری ٹوپی ، قراقری ٹوپی اور رومی ٹوپی حیدرآباد میں عام تھیں۔ گاندھی ٹوپی آزادی کے بعد خاصی مقبول ہوئی اور اس کی شناخت سیاسی تھی۔ یہ عام طور پر سفید کھادی کی بنی ہوتی تھی۔

آزادی سے پہلے مسلمانوں اور کائستھوں میں دستار ہی استعمال ہوتی تھی۔ تقریبات میں دستار کی خاصی اہمیت تھی۔ یہ آٹھ گز نفیس ترین ململ سے بنائی جاتی ہیں۔ سر پر درمیان میں روٹی کی شکل میں کپڑا ہوتا ہے جس کے اطراف سات پلیٹیں دائرے کی شکل میں ہوتی ہیں ، سامنے تاج کی شکل ہوتی ہے۔ گھر میں تین رنگ کی دستاریں ہوتی تھیں ۔۔۔
سفید - عام استعمال کیلئے
سیاہ - غم کے موقع پر
گلابی - شادیوں کے موقع پر

رومی ٹوپی :
جس نے بھی نظام سابع کو عام لباس میں دیکھا ہے ان کو یاد ہوگا کہ وہ لال رنگ کی ٹوپی جو مخروطی ہوتی تھی اور اس پر ایک پھندنا ہوتا تھا ، پہنا کرتے تھے۔ اس کو ترکی ٹوپی یا پھر رومی ٹوپی کہا جاتا تھا۔ یہ ٹوپیاں اکثر عید بقر عید پر نظر آتی تھیں۔ اب رومی ٹوپیاں تقریباً ناپید ہو گئی ہیں۔

قراقری ٹوپی :
قراقری ٹوپی کشتی نما تو ہوتی تھی مگر ایک مخصوص بھیڑ کے بالوں سے تیار کی جاتی تھی جو گھنگریالے ہوتے ہیں۔ عام طور پر ہندو حضرات کے معمول کی ٹوپی تھی یعنی دفتر میں اس کا بطور خاص استعمال ہوتا تھا، کبھی کبھار تقاریب میں بھی پہن لیتے تھے۔

گاندھی ٹوپی :
پتہ نہیں کیوں کھادی کی بنی کشتی نما ٹوپی گاندھی سے منسوب ہے حالانکہ یہ ٹوپی جواہر لال نہرو نے بہت پہنی ہے اور آخرکار یہ ٹوپی کانگریس سے ہی منسوب ہو کر رہ گئی ہے۔

نمازی ٹوپی :
یہ کروشیا سے عام طور پر بنائی جاتی ہے ، کبھی کبھی کپڑے سے بنی بھی مل جاتی ہیں۔ عموماً گول ہوتی ہیں۔

ایک خاص ٹوپی کا ذکر بھی ضرور کرنا چاہوں گی جو پشواز پر خواتین پہنا کرتی تھیں ، یہ ٹوپی گول یا چوکور ہوتی تھی۔ پیشانی پر ٹیکہ ہوتا اور کارچوب کا کام ہوتا اور اسی میں کالے دھاگے کی چار یا چھ چوٹیاں ہوتی تھیں جن میں کناری کی موباف ہوتی تھی۔

دراصل ہماری تہذیب میں سر ڈھانکنا خاص طور پر داخل ہے۔ عورتیں اپنی ساری کے پلو سے یا پھر چادر دوپٹہ سے سر ڈھکتی ہیں تو مرد پگڑی سے۔ چاہے وہ غم کا موقع ہو یا پھر خوشی کا۔ آج بھی اگر ٹوپی نہ ہو تو مرد سر پر دستی یا پھر ہاتھ ہی رکھ لیتے ہیں۔
جبکہ مغرب میں سر سے ہیٹ اتارا جاتا ہے۔ چاہے بزرگوں سے ملا جا رہا ہو یا کسی غمی کی تقریب میں شرکت کر رہے ہوں ، مرد اپنا ہیٹ اتار دیتے ہیں۔

آج بھی ٹوپی ہماری تہذیب کا حصہ ہے چاہے وہ ہیٹ نما ہو ، کشتی نما ہو یا کپڑے کی نمازی ٹوپی ہو۔ رومی ٹوپی ، قراقری ٹوپی ، پشواز والی ٹوپی وغیرہ ناپید ہیں۔ خرگوش کے بالوں کی ٹوپی آج دیکھنے کو مل جاتی ہے ، باقی سب ٹوپیاں تو اچھالی جا چکی ہیں۔


***
بشکریہ : روزنامہ منصف (2011-03-31) کے کالم "مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا : اودیش رانی" سے۔

3 تبصرے:

  1. انوکھی پوسٹ ہے، اچھی ٹوپی پہنائی ہے :)

    جواب دیںحذف کریں
  2. السلام علیکم
    اچھی تحریر ہے ویسے ٹوپی پہننے کے ساتھ ساتھ پہنائی بھی جاتی ہے ;)

    جواب دیںحذف کریں
  3. شکریہ ۔ بہت اچھی معلوماتی تجحریر ہے

    جواب دیںحذف کریں