© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
15/دسمبر/2023ء
*****
عموماً میں کتابیں اپنی جیب سے خریدا کرتا ہوں لیکن آج اتفاق سے تین کتابیں بذریعہ ڈاک بطور تحفہ وصول ہوئیں۔ اشعر نجمی اور اطہر فاروقی صاحبان کا بہت شکریہ۔
اشعر نجمی کے افسانوں کا مجموعہ "گمشدہ خوابوں کی ایک رپورٹ" تو پچھلے کچھ دن سے سوشل میڈیا پر ہاٹ کیک بنا ہوا ہے۔ اس کا انتظار اس لیے بھی تھا کہ ناول نگار اور مدیر کے انداز و اسلوب سے تو واقفیت ہو چکی تھی اب انہیں بحیثیت افسانہ نگار پڑھنے کی خواہش رہی ہے۔ 208 صفحات کے اس مجموعے میں صرف سات افسانے ہیں اور شاید صرف دو کو چھوڑ کر باقی پانچ "طویل مختصر افسانہ" کی کٹیگری میں آتے ہیں۔ کتاب ملتے ہی میں نے پہلے افسانے پر نظریں دوڑانی شروع کر دیں۔ یہ پہلا افسانہ "گمشدہ خوابوں کی ایک رپورٹ" کشمیر کے حالات کی عکاسی کر رہا ہے۔ ناول نگار اشعر نجمی کے بےرحم و سفاک قلم کی کاٹ افسانے میں بھی محسوس ہوتی ہے، ذرا دیکھیے تو:
"۔۔۔ اذان، جمعہ کا خطبہ، شادی بیاہ میں ڈھولک کی تھاپ، کسی کو پکارتے ہوئے، موبائل پر گفتگو کرتے وقت، نیند میں بڑبڑاتے ہوئے، حتیٰ کی درد کی مقدار اور چیخ کی فریکوئنسی کے درمیان توازن برقرار رکھنا ضروری ہو گیا تھا ورنہ اصل خطرے کا اندازہ لگانے میں دشواری پیش آ سکتی تھی، مثلاً اگر لوڈ شیڈنگ کے وقت کوئی شخص راستے کے کھلے گٹر میں گر جاتا اور وہ فلک شگاف چیخ مارتا تو جواب میں سیکورٹی فورسز اس سمت اندھادھند گولیوں کی بارش کر سکتی تھی، نتیجتاً تاریکی میں چلتے ہوئے دو چار راہگیروں کی لاشیں بغیر چیخے گر سکتی تھیں۔ اس لیے ان دنوں کشمیر میں آوازوں کو کسی کنجوس بنیے کی طرح خرچ کرنے کی پریکٹس لازمی تھی۔"
امید ہے اِس ویک اینڈ پر افسانے کی مکمل قرات کا موقع ملے گا، کہ میری توقع کے عین مطابق ناول کی طرح اشعر نجمی کے افسانے بھی ذرا ٹھہر ٹھہر کے پڑھنے کا تقاضا کرتے ہیں۔
کتاب کا سرورق، طباعت اور کاغذ بلاشبہ شاندار اور لاجواب ہے۔ البتہ دونوں سائیڈ کے فلیپ پر موجود تحریر کو پڑھنے میں قدرے دشواری ہوتی ہے، شاید مناسب رنگ یا فونٹ استعمال نہیں کیا گیا ہے۔
اطہر فاروقی صاحب کی محبت و عنایت کا تہ دل سے ممنون ہوں۔ ایسی دو اہم کتابیں انہوں نے بھیجی ہیں جو میرے مطالعے کے ذوق و معیار کو یقیناً تسکین پہنچائیں گی۔
افتخار عارف جیسے لیجنڈ شاعر سے بھلا کون واقف نہیں۔ رسالہ سائز کے تقریباً 600 صفحات پر مشتمل افتخار عارف کی کلیات بعنوان "سخنِ افتخار" ان کے چار مجموعوں (مہرِ دونیم، حرفِ باریاب، جہانِ معلوم اور باغِ گلِ سرخ) کے کلام پر مشتمل ہے۔ انڈیا میں یہ کتاب انجمن ترقی اردو ہند کی جانب سے اسی سال شائع کی گئی ہے۔ قیمت 1500 روپے ہے۔
کتاب کے مقدمہ کے بطور اطہر فاروقی نے "اکیسویں صدی جس کی شاعری سے منسوب ہوگی" کے زیرعنوان چھ صفحات کی نہایت دلچسپ و معلوماتی تحریر کے آغاز میں ایک بڑے پتے کی (چبھتی ہوئی) بات کہی ہے:
"شاعری کا یونی ورسٹیوں میں برسرکار استادوں کے قلم سے تنقیدی تجزیہ ۔۔۔ اور شاعری سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اول الذکر ایک خاص قسم کی ذہنی بیماری ہے اور آخر الذکر آپ کے ذوقِ سلیم کے تربیت یافتہ ہونے کی پہچان۔"
آگے چل کر اطہر فاروقی نے یہ بھی بالکل بجا لکھا کہ ۔۔۔
"۔۔۔ برصغیر کو افتخار عارف کی شاعری کا بڑا حصہ اس زمانے سے یاد ہے جب سوشل میڈیا جیسا طاقتور میڈیم موجود نہیں تھا اور اشعار سینہ بہ سینہ یعنی ہوا کے دوش پر ایک کے بعد دوسرے دل کو زخمی کرنے نکلتے اور زبان کا حصہ بن جاتے تھے۔"
امید ہے کہ یہ کلیات طویل عرصہ تک بستر کے سرہانے کی رونق بنی رہے گی۔ اور امید ہے کہ شریکِ حیات محترمہ جو کہ شاعری کا عمدہ ذوق رکھتی ہیں، مگر کمبخت سوشل میڈیا ریلز کے وائرل بخار کا شکار ہو گئی ہیں، اسی کلیات کی بدولت دوبارہ مطالعہ کی جانب لوٹ آئیں گی۔
دوسری کتاب انٹرویوز پر مشتمل خود اطہر فاروقی کی تصنیف "گفتگو اُن کی" ہے جو 2006ء میں انجمن ترقی اردو ہند کی جانب سے ہی شائع ہوئی تھی۔ انٹرویو میرے مطالعہ کی ایک پسندیدہ صنف ہے۔ خود میں نے فلمی میگزین "شمع" میں شائع شدہ فلمی فنکاروں کے انٹرویوز کا ایک انتخاب ترتیب دے کر گذشتہ سال شائع کیا تھا اور انٹرویوز پر ہی مبنی دیگر دو کتابیں بھی زیرترتیب ہیں۔
اس کتاب کے سرسری مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی معمولی اور روایتی قسم کے انٹرویو نہیں ہیں۔ جن مقبول و معروف شخصیات کے انٹرویو لیے گئے، ان کے نام ہی اس بات کی گواہی ہیں کہ یہ کتاب ایک خاص کتاب ہے، مثلاً یہ چند نام: اخترالایمان، مجروح، شہریار، ظفر پیامی، بیکل اتساہی، احمد فراز، رشید حسن خان، شمس الرحمن فاروقی، خلیق انجم، رالف رسل، محمد علی صدیقی، قمر رئیس، جسٹس جاوید اقبال (فرزند علامہ اقبال)، دلیپ کمار، محمد علی (پاکستانی لیجنڈ اداکار)، میر خلیل الرحمن، مجیب شامی، مرارجی دیسائی، وی پی سنگھ، دلائی لامہ، محمد خان جونیجو ۔۔۔ وغیرہ۔
کتاب کے آخر میں صاحبِ کتاب پر ممتاز مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا تحریرکردہ دلچسپ و یادگار خاکہ بعنوان "اطہر فاروقی : خوبصورت تضادوں کا آدمی" شامل ہے۔ مجھے کوئی دعویٰ تو نہیں لیکن ہمیشہ شبہ رہا کہ مجتبیٰ حسین کے تحریر کردہ تقریباً تمام خاکے میرے مطالعے سے گزر چکے ہیں لیکن یہ خاکہ دیکھ کر میرا شبہ واقعی شبہ لگتا ہے کہ یہ خاکہ میں نے اب تک نہیں پڑھا تھا۔ اس خاکے میں مجتبیٰ حسین نے ایک بات بڑی مزیدار لکھی ہے:
"۔۔۔ دلی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے اردو حلقوں میں بھی تقریباً ہر آدمی اطہر فاروقی سے شدید نالاں، ان کے خون کا پیاسا تو ہے مگر اس مخالفت پر کبھی کسی سے کوئی تشفی بخش جواب کم سے کم میں نے نہیں سنا۔ اور تو اور اردو میں پائے جانے والے کمیونسٹ بھی اطہر فاروقی سے ناراض ہی رہتے ہیں، اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اطہر فاروقی جیسے راسخ العقیدہ مگر پڑھے لکھے مارکسٹ (Marxist) اردو معاشرے میں اب عجوبۂ روزگار ہیں۔"
بات مزیدار ہے اور سچ بھی کہ یہ غریب خود بھی کچھ بار اطہر فاروقی کی باتوں سے نالاں رہ چکا ہے۔
خیر امید ہے یہ انٹرویوز میری معلومات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ اور امید ہے کرسمس کی چھٹیوں میں اس اہم کتاب سے استفادہ کا موقع ملے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں