بودھن (ضلع نظام آباد، ریاست تلنگانہ) کے قلمکار، شاعر، نثرنگار اور اسکول استاذ ڈاکٹر عبدالخلیل کشش اپنے ایک مضمون "ناول نگاری کے ارتقاء میں خواتین کا حصہ" (شائع شدہ: روزنامہ سیاست، حیدرآباد، مورخہ 25/اپریل 2015ء) میں لکھتے ہیں۔۔۔
اردو ناول نگاری کے فن کو جہاں مرد ، ناول نگاروں نے پروان چڑھایا ہے وہیں خاتون ناول نگاروں نے بھی اس کی آبیاری کی ہے۔ گو کہ خواتین نے ناول نگاری کے میدان میں مردوں کے بہت بعد میں قدم رکھا ہے پھر بھی ناول کے ارتقاء میں ان کے تعاون کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اردو ناول کا وقار بلند کرنے میں عطیہ پروین ، عفت موہانی ، مسرور جہاں ، دیبا خانم ، واجدہ تبسم ، جیلانی بانو ، حسنہ جیلانی ، صفیہ سلطانہ ، شکیلہ اختر ، رفیعہ منظور الامین ، جمیلہ ہاشمی ، آمنہ ابوالحسن ، ضغری مہدی ، بشری رحمن ، سلمی کنول ، ناہید سلطانہ اختر ، رضیہ بٹ ، رشید جہاں ، ہاجرہ مسرور ، ذکیہ مشہدی ، رضیہ سجاد ظہیر نے اہم کردار ادا کیا۔
غرض کہ خاتون ناول نگاروں اور ان کے ناولوں کا ایک کارواں نظر آتا ہے جو اپنی منزل کی طرف تیزی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ مثلاً مسرور جہاں کے ناول 'اجالے'، 'رنگ ہزار'، 'درد کا ساحل'، 'ایک مٹھی بوجھ'، 'پیکر'، 'خزاں سے دور'، 'پیار کا رشتہ'، ' راہوں میں' اور 'اپنا خون' وغیرہ۔ عفت موہانی کے ناول بھنور ، درد کا درماں ، آپ ہیں پھول ، پندار، داغ دل ، ہم سفر اور پہچان وغیرہ۔ مینا ناز کے ناول بدنام ، انجانی منزل ، پکار ، پاگل نینا ، آشنا ، پہاڑی چاند ، بہار آنے تک اور نیند آنکھوں میں ، سپنے وغیرہ۔
یسویں صدی کی ساتویں اور آٹھویں دہائی کے مقبول عام ادب کے پروردہ ہندوستانی قارئین اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ اردو ناول نگاری کے ہجومِ بےپناہ میں رضیہ بٹ، دیبا خانم، مینا ناز، سلمیٰ کنول، بشریٰ رحمن، مسرور جہاں، عطیہ پروین، عفت موہانی وغیرہ کے نام کس طرح گرم کیک کی طرح فروخت ہوتے تھے۔ گلی محلے کی کوئی ایسی لائبریری نہ تھی جہاں ان خواتین ناول نگاروں کے ناول کرایہ پر دستیاب نہ ہوتے رہے ہوں۔
آج ایک انکشاف پاکستان کے معروف ادیب اور آس پبلی کیشنز کے سرپرست ابن آس نے اپنی تازہ فیس بک پوسٹ میں یہ کیا ہے کہ:
کچھ لکھنے والے ایسے ہوتے ہیں۔۔۔ جو زندگی بھر اپنی شناخت کے بغیر صرف اور صرف کام پر دھیان دیتے ہیں۔
دیبا خانم کے نام سے۔۔۔ ایک مرد ۔۔۔ محی الدین نواب لکھتا تھا۔۔۔
اور مینا ناز کے نام سے۔۔۔۔ امین نواز۔۔۔ نامی شخص ناول لکھتا تھا۔
عورت کے ذہن سے سوچنا۔۔۔ کسی آدمی کے لیے ممکن نہیں تھا۔۔۔ مگر یہ محی الدین نواب اور مینا ناز کر دکھایا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں