© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
9/ذی الحجہ 1444ھ م 28/جون/2023ء
*****
لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک
راقم الحروف کی اب تک کی زندگی کا یہ اکلوتا حج ہے جس کی سعادت 27 سال قبل حاصل ہوئی تھی۔ وقوف عرفات ہفتہ کے روز واقع ہوا تھا۔
اواخر اگست 1995ء میں ریاض (سعودی عرب) میں بغرض معاش وارد ہونے کے دوسرے ہی ماہ یعنی اکتوبر میں جدہ داخلہ ہوا کہ یہاں والد صاحب اور کچھ عزیز دوست عرصہ دراز سے قیام پذیر تھے۔ مختصر عرصہ کی ایک ملازمت ہاتھ آئی جو دراصل جدہ سے کچھ مسافت پر واقع علاقہ ابھور میں ایک پرنس کے محل کا تعمیراتی پراجکٹ تھا۔ ملازمت ختم ہوتے ہی ریاض واپسی کا ارادہ طے ہو گیا کہ جدہ کئی لحاظ سے پسند نہیں آیا تھا۔ مگر دوستوں نے کہا کہ حج قریب ہے، اس کی سعادت حاصل کرکے واپس ہو جانا۔ ویسے بھی اگلے سال سے حج تصریح کا قانون نافذ ہونے والا تھا کہ اقامہ نمبر کے اندراج اور حکومت کے اجازت نامے کے بغیر مقیمین کا حج ممکن نہیں۔
اگلے سال حج اجازت نامے کا جو لزوم مقامی شہریوں کے لیے نافذ کیا گیا، اس کی فیس دو ہزار ریال تھی، جس کے ساتھ اقامہ نمبر کا اندراج اور پانچ سال تک دوبارہ حج نہ کرنے کی شرط بھی تھی۔ یہ فیس کئی سال برقرار رہی ۔۔۔ اب تو سنا ہے کہ چار مختلف حج پیکج بنائے گئے ہیں اقل ترین چار ہزار ریال اور اعلیٰ ترین ساڑھے دس ہزار ریال۔
بہرحال مجھ سمیت پانچ نوجوان ساتھیوں نے احرام باندھا اور جدہ سے 7/ذی الحجہ کی شام سفرِ حج کی خاطر ایک پرائیویٹ بس کے ذریعے نکل پڑے۔ میرے پاس صرف پانچ سو ریال کی رقم تھی اور شاید آج سننے/پڑھنے والوں کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ مکمل حج مع قربانی کے لیے اتنی رقم کافی ہو گئی تھی۔ اس وقت منیٰ میں سعودی حکومت کی جانب سے قائم شدہ مذبح خانے میں قربانی کا نظم تھا اور عازمین حج کو منیٰ کے میدان میں قائم اسلامک ڈیولپمنٹ بنک کے کیبن میں قربانی کی رقم جمع کروا کر رسید لینا پڑتا تھا۔ بعد ازاں یہ رسید بتا کر مذبح خانے میں اپنے نام کے دنبے کی قربانی ہوتے دیکھنے کی سہولت حاصل تھی مگر جس کے لیے اپنا نمبر آنے کا انتظار کرنا بھی ضروری تھا۔ بیشتر حاجی اسے غیرضروری مشقت سمجھتے تھے کہ خود جا کر اپنے نام کا بکرا کٹتے دیکھا جائے، جب قربانی کی رقم ادا کر دی ہے تو وہ ہو ہی جائے گی۔ راقم بھی اسی سوچ کا حامل تھا۔
قربانی کی متعلقہ رسید اتنے برسوں بعد آج بھی میرے پاس محفوظ ہے جس کی تصویر اس تحریر سے منسلک ہے، تفصیل دیکھیے:
قربانی کے جانور کی قیمت : 281.77
ذبح کرنے اور دیگر خدمات : 49.56
قربانی کے گوشت کا سرد خانے میں تحفظ : 7.61
حمل و نقل اور تقسیم : 36.06
جملہ رقم : 375 سعودی ریال
حرم مکی میں نماز فجر اور طواف کے بعد ہم لوگ بذریعہ ساپتکو بس (سعودی لوکل ٹرانسپورٹ بس) منیٰ روانہ ہوئے۔ اس وقت منیٰ میں آج کی طرح خیموں کا ہجوم نہیں تھا، چند سو خیمے ضرور تھے مگر ایک وسیع و عریض میدان میں شیڈ ڈالا گیا تھا اور اس شیڈ کے نیچے جگہ حاصل کرنے میں ہم لوگوں کو کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے لگ گئے۔ بس ذرا سی جگہ ہوتی ہے جہاں بندہ چٹائی بچھا کر ہاتھ پاؤں سمیٹ کر لیٹ سکے۔ بہرحال عبادت تلاوت ذکر و اذکار کے ساتھ رات گزاری اور 9/ذی الحج کو صبح سات یا آٹھ بجے میدانِ عرفات کی طرف پیدل رواں ہوئے۔
میدان عرفات کی یادیں آج بھی ذہن میں تازہ و تابندہ ہیں۔ خصوصاً خطبۂ حج کے بعد مسجد نمرہ میں امام صاحب رقت آمیز انداز میں جب دعائیں مانگتے ہیں تو آدمی کا رواں رواں کانپنے لگتا ہے جسم پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے آنکھوں سے سمندر بہنے لگتا ہے۔۔۔ یہ بلاشبہ لفاظی نہیں، خود میرے اپنے بھی ذاتی تاثرات رہے ہیں ۔۔۔
جس وقت دعا کو ہاتھ اٹھے
یاد آ نہ سکا جو سوچا تھا
باقی نہ رہا پھر ہوش مجھے
کیا مانگ لیا کیا بھول گیا!!
مغرب سے قبل میدانِ عرفات سے نکل کر مزدلفہ جانا ہوتا ہے، جہاں سے فجر کے وقت واپس منیٰ لوٹنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ مزدلفہ میں سب سے زیادہ پریشانی حوائج ضروریہ سے فراغت کی ہوتی ہے کہ لمبی لمبی قطار دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے (شاید اب کچھ بہتر سہولیات فراہم کر دی گئی ہوں)۔ مگر ٹوائلٹ جانے سے بچنے کے لیے ہم ساتھیوں نے صرف پھل اور جوس پر انحصار کیا ہوا تھا، پانی بھی کم پی رہے تھے۔ خیر دسویں ذی الحج کو منیٰ پہنچ کر تین دن قیام کی خاطر جگہ ڈھونڈنے کی وہی مشقت دوبارہ جھیلنی پڑی۔ تھوڑی سی جگہ ملی اور ہم پانچ دوستوں نے اسی مختصر سی جگہ میں تین دن اور دو راتیں گزار دیں۔ جو وقت گزرا وہ بیان کے قابل نہیں ہے۔ آج سے تقریباً تین دہائی قبل نہ اسمارٹ فون تھا اور نہ انٹرنیٹ اور حجاج کرام کی بیشتر تعداد جس قسم کی وقت گزاری سرگرمیوں میں، توتکار اور فضول گوئی میں مشغول تھی۔۔ اس نے ایک بزرگ کے قول کو سچ ثابت کیا کہ:
انسانی نفس کی تربیت چند گھنٹے یا چند روزہ عبادت نہیں بلکہ یہ ایک عمر کا سلسلہ وار پراسیس ہے جس کا آغاز ہی بچپن/لڑکپن سے ہو جاتا ہے!
پھل اور جوس سے مسلسل دو دن نپٹنے کے بعد خیال آیا کہ اگر اب بھی چاول نہیں کھایا تو حیدرآبادی ہونے کا حق گویا ادا نہیں ہوا۔ تلاش پر ایک پاکستانی ہوٹل سے (کہ جس کے نام کا سابقہ یا لاحقہ لاہوری تھا) بگھارا کھانا اور قورمہ پانچ ریال کا ملا۔ پہلے ہی لقمے پر کہنا پڑا: تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو!
خدا کی پناہ، چاول کے ایک ایک دانے سے تیل کا قطرہ یوں ٹپک رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو: ہم بنے تم بنے ایک دوجے کے لیے!
مگر صاحب جوانی کے لکڑ پتھر ہضم والے دن تھے سو چاول کا کوئی دانہ نہیں چھوڑا۔۔۔ پھر جس کا نتیجہ بھی برابر بھگتنے پر مجبور ہونا پڑا ۔۔ دو چار ہفتے یا دو چار ماہ نہیں بلکہ پورے ایک سال تک خشک کھانسی نے چین نہ لینے دیا۔۔۔ غلطی یہ کی تھی کہ اسی وقت تیل کی تیزابیت کو ختم کرنے چار پانچ پیپسی کی بوتلیں وقفہ وقفہ سے حلق میں انڈیل لی تھیں۔ اس لاہوری بابے کا حشر میں گلا پکڑنے کی شدید خواہش آج بھی دل میں جاگزین ہے۔
تینوں شیطانوں کو کنکر مارنے کے لیے انسانوں کے بیچ سے ہی گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی دل میں خواہش مچلتی کہ ان لحیم شحیم عربوں حبشیوں کو ہی چپکے سے کنکر مار کر کھسک لیا جائے کہ جن کی تیزرفتاری اور پرقوت بدنی حرکات دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ جانباز میدانِ جنگ میں ہیں اور روندنا، کچلنا، دھکیلنا، رگیدنا ان کا پیدائشی حق ہے!
12/ویں ذی الحج کو بعد عشا منیٰ سے واپس مکہ کا قصد کرکے ہم لوگ اس جگہ پہنچے جہاں سعودی ساپتکو بسیں مکہ سفر کے لیے تیار ٹھہری تھیں۔ مگر قسم لیجیے جو تین چار گھنٹے کی بک بک جھک جھک کے بعد بھی کسی ایک ساتھی کو کسی ایک بس میں جگہ ملی ہو، ناچار ہزاروں حجاج کی طرح مکہ اور منیٰ کو جوڑنے والی سرنگوں سے گزر کر پیدل پیدل ہی حرم شریف میں داخل ہوئے۔ وداعی طواف کے بعد جب روایتی دس ریال والی کوسٹر کے ذریعے جب جدہ میں اپنی قیامگاہ پر واپسی ہوئی تو جیب میں بیس پچیس ریال پھر بھی باقی رہ گئے تھے۔
#مرزا نے چند دن قبل یہ روداد سنی تو بولے تھے:
"حاجی صاب! تمہاری کفایت شعاری کا تو قائل ہوں مگر جس طرح بس اِتّے ذرّا سے پیسوں میں حج اور قربانی کا فریضہ نبھایا، اس پر تو ایوارڈ لینا بنتا ہی ہے۔ کہو تو فلاں فلاں گلپوشی گینگ والوں سے بات کروں ۔۔۔ ذرا خرچہ پانی کو دس پندرہ ہزار میرے جی-پے پر ٹرانسفر تو کرنا۔۔۔"
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں