لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2023/08/01

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
یکم/اگست/2023ء
*****


تین مسلم ریل مسافرین کے دن دھاڑے قتل بذریعہ ریلوے پولیس کانسٹبل، پر ہندوستان میں مسلمانوں کو غیرمحفوظ بتا/جتا کر ان کی صفوں میں خوف/دہشت/اشتعال پھیلانے والے کمزور یادداشت کے حامل سوشل میڈیائی جذباتیت و شدت پسند مسلمان بھول رہے ہیں کہ۔۔۔
اواخر مئی 1987ء میں محلہ ہاشم پورہ (ملیانہ، میرٹھ، اترپردیش) کے تقریباً 50 مسلم نوجوانوں کو، اتر پردیش کی پروویژنل آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) کے 19 کانسٹبلوں نے قطار میں کھڑا کر کے نہ صرف گولی ماری بلکہ لاشیں بھی قریب کے نالے میں بہا دی تھیں۔
میرٹھ کا متذکرہ مسلم نسل کش فساد اس قدر لرزہ خیز تھا کہ مقبول عام شاعر بشیر بدر نے میرٹھ سے نقل مکانی کرتے ہوئے اپنا وہ شہرہ آفاق شعر کہا تھا:
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں اک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں؟!


آج ہم سوشل میڈیا پر طعنہ زنی کر رہے ہیں کہ کس طرح اس کانسٹبل کو بچانے کے لیے اسے "ذہنی معذور" قرار دیا جا رہا ہے۔۔۔ مگر یہ بات ہم بھول رہے ہیں کہ ۔۔۔ ابھی چند ہفتے قبل اپریل 2023ء میں تقریباً 36 سال بعد، ہاشم پورہ سانحے کا فیصلہ سناتے ہوئے میرٹھ کورٹ نے 38 ملزموں کو بری کر دیا تھا۔
کیا یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہندوستان میں مسلمان کے لیے زمین تنگ کر دی گئی ہے؟
ہم کہتے ہیں کہ بالکل نہیں، قطعاً نہیں!!


تقسیم ملک (1947) کے فسادات سے لے کر حیدرآباد کے پولیس ایکشن (1948) ، شہادتِ بابری مسجد (1992)، کلکتہ (1964)، بھیونڈی (1970)، مرادآباد (1980)، گجرات (1969، 1985، 2002)، بھاگلپور (1989)، بمبئی (1992)، مالیگاؤں (2006)، مظفرنگر (2013)، آسام (2014)، دہلی (2020)۔۔۔ کے مسلم کش فسادات کے دوران ارضِ ہند مسلمانوں کے خون سے جگہ جگہ رنگین ہو چکی ہے۔


مگر پھر بھی ہم یہاں جی رہے ہیں۔۔۔
اور پھر بھی ہم ترکِ وطن نہیں کرتے کیونکہ ۔۔۔
وطنِ عزیز کی جڑوں میں ہمارا اور ہمارے بزرگوں کا لہو بستا ہے!!
چاہے لاکھ آزمائشیں آئیں ۔۔۔ لیکن ہماری نسل اور ہمارے بعد والی نسل کو یہ حقیقت ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ۔۔۔
کچھ کمی بیشی کے ساتھ آج بھی ہندوستان کے تمام باشندوں کے ہمراہ مسلمانوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔۔۔ سرکاری/ غیرسرکاری تعلیم گاہوں میں داخلے کے لیے ہم پر کوئی پابندی نہیں، مرکزی/ریاستی حکومتوں کے سیاسی و نوکرپیشہ عہدوں میں ہمیں آئینِ ہند مساوی حقوق دیتا ہے، معیشت و تجارت کے میدان ہمارے لیے کھلے ہیں ۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک میں مرکزی/ریاستی سرکار کو منتخب کرنے کا حق ہمیں حاصل ہے!


دنیاوی مصائب و مشکلات انسانی زندگی کا جہاں ناگزیر حصہ ہیں وہیں اسلامی عقیدے کے مطابق اللہ کی طرف سے آزمائش بھی ہیں۔ سورہ البقرہ کی آیت 155-156 کا ترجمہ (مودودیؒ) ہے:
اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے، اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے"۔


فسادات و سانحات کی معروضی ریکارڈنگ و رپورٹنگ ضرور ہونی چاہیے تاکہ ظالموں و ستم گروں کے ظلم و ستم، دہشت گردی و داداگری سے دنیا آگاہ ہو۔ لیکن اس کی قیمت یہ نہ ہو کہ ہم سوشل میڈیا پر اپنے ہی طبقے میں خوف و دہشت پھیلانے، وطن و برادرانِ وطن کے خلاف بےجا طیش، نفرت و بغض پھیلانے کا باعث بنیں۔۔۔
یہ مت بھولیے کہ وطنِ عزیز ہندوستان کی شناخت جن اسمائے گرامی کے حوالے سے دنیا بھر میں جانی مانی جاتی ہے ان میں مولانا آزاد، ذاکر حسین، شیخ عبداللہ، محمود الحسن دیوبندی، عظیم پریم جی، یوسف علی، دلیپ کمار، رفیع، نوشاد، اظہرالدین، ثانیہ مرزا وغیرہ وغیرہ کے علاوہ ۔۔۔ سید مودی بھی شامل ہیں!!

Difference between objective reporting and social media propaganda war.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں