© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
یکم/مئی/2023ء
*****
مہ لقا چندا کی شاعری اور رقص معروف باتیں ہیں، لہذا ان پر اعتراض نہیں ہے۔ اعتراض "طوائف" باور کرانے پر ہے اور اس بات پر بھی کہ:
"آصف جاہ ثانی نے مہ لقا سے ہم بستری کی اور پھر چند دن بعد ان کی وفات ہو گئی۔"
کسی کتاب میں کسی واقعہ کا بیان ہونا، اس واقعہ کو "سچا" ثابت نہیں کر دیتا۔ یہ معمولی سی بات تو ہر کوئی جانتا ہی ہے۔ اگر ہم اس طرح اول جلول بےسند واقعات پر یقین کرتے بیٹھیں تو خلفائے راشدین بھی بچ نہ پائیں گے کہ تاریخ کی کتابوں میں نہایت قابل اعتراض بےسند واقعات بھرے پڑے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک مولانا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شراب پینے والے واقعہ کو بیان کیا تھا۔۔۔ اور سوشل میڈیا پر ہم سب نے دیکھا کہ پھر ان مولانا کا کیا حشر کیا گیا؟؟
لہذا معاشرے کی معتبر شخصیات سے مودبانہ گذارش بس اتنی ہے کہ بےسند واقعات کو اپنی ٹائم لائن پر پیش نہ فرمائیں۔ خاص طور پر جب معاملہ کسی مذہبی پیشوا یا کسی حکمران سے متعلق ہو۔
ماہ لقا پر عہد حاضر کے جن دانشوروں نے مضامین لکھے جیسے ڈاکٹر زور مرحوم اور مشہور صحافی اور ادیب اختر حسن مرحوم وغیرہ۔۔۔ ان میں سے کسی نے اپنے طویل مضامین میں ماہ لقا کے لیے طوائف کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ نصیر الدین ہاشمی، حیدرآباد دکن کی تاریخ و ادب کی نامور شخصیت ہیں، وہ اپنی کتاب "دکن میں اردو" میں لکھتے ہیں:
"طوائف کے نام سے ممکن ہے ذہن آج کل کی طرف منتقل ہو مگر ایسا نہیں تھا، چندا ایک خاندانی خاتون تھی اور پیشہ ور طوائف نہیں تھی"۔
پروفیسر عبدالمجید صدیقی اپنی کتاب "ارسطو جاہ" میں لکھتے ہیں:
یہ دیکھ کر اچنبھا ہوتا ہے کہ زندگی کے اس میدان (تہذیب و تمدن) میں بعض عورتوں نے بھی مردوں کے دوش بدوش کام کیا اور تاریخ کے صفحات پر اپنے کارناموں کے ایسے نقوش چھوڑے جن کو تاریخ نہیں بھلا سکتی۔ ان عورتوں میں چندا بائی ماہ لقا کا نام سرفہرست آتا ہے۔ ماہ لقا خاندانی طوائف نہ تھی بلکہ ناسازگار حالات کی وجہ سے ان کانٹوں میں گھسیٹی گئی اور حقیقت بھی یہی ہونی چاہیے کیونکہ ماہ لقا کی تمام زندگی میں ایک شائستہ خاندان کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ایک نری رقاصہ جس کا کوئی ثقافتی پس منطر نہ ہو وہ اتنی بڑی ادیب، شاعر اور سرتاج سماج کیسے ہو سکتی ہے؟ ماہ لقا کی تاریخ کیا ہے، وہ اصل میں حیدرآباد کی تاریخ ہے۔ اس پر نظر ڈالنے سے اٹھارویں اور انیسویں صدی کی تمام تر سیاست اور معاشرت آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ یہ رقاصہ کی سوانح نہیں بلکہ ایک بڑی شخصیت کی سرگذشت ہے۔
نظام علی خاں آصف جاہ ثانی کی سوانح حیات دو جلدوں میں (مصنف: سراج الدین طالب) ریختہ پر موجود ہے، اور اس میں کہیں بھی وہ واقعہ موجود نہیں جس کا ذکر کیا گیا ہے۔
پھر راحت عزمی کی مہ لقا چندا کی سوانح پر مبنی ایک تحقیقی کتاب بھی ریختہ پر موجود ہے، اس میں بھی اس واقعہ کا کوئی تذکرہ نہیں۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ماہ لقا بائی چندا - آصف جاہی دور سلطنت کی با اثر خاتون
فاروق ارگلی صاحب نے جس کتاب میں درج واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ غالباً نجم الغنی رامپوری کی تالیف "تاریخ ریاست حیدرآباد" ہے جس میں تاریخ خورشید جاہی سے ماخوذ متذکرہ واقعہ نقل کیا گیا ہے۔ راحت عزمی نے اپنی کتاب "ماہِ لِقا : حالاتِ زندگی مع دیوان" کے صفحہ:141 پر نجم الغنی رامپوری کا یہی اقتباس درج کیا ہے جو کچھ یوں ہے:
""بڑے بیٹے (احمد علی خاں عالیجاہ) کی موت وغیرہ کے بعد نواب کا مزاج اعتدال سے منحرف رہتا تھا۔ ارکان دولت اور بیگمات محل کے کہنے سے طبیعت کی درستی کے لیے عیش و عشرت کی طرف مائل ہوئے۔ دربار میں ہمیشہ ناچ رنگ رہنے لگا۔ تاریخ خورشید جاہی میں لکھا ہے کہ اکثر آدمیوں نے اپنی لڑکیاں ہزاروں زیب و زینت کے ساتھ آراستہ کرکے نواب کو پیش کیں، ان میں سے بعض ہی کو نواب سے ہم بستری کا شرف حاصل ہوا۔ نواب کے عہد میں چندابائی نامی ایک کسبی تھی نہایت حسین و شکیل، ماہ لقا بائی اس کا خطاب تھا۔ اختر تاباں سے معلوم ہوتا ہے کہ چندا اس کا نام اور ماہ لقا اس کا خطاب تھا۔ گانے بجانے کے فن میں ماہر اور علم موسیقی کی باریکیوں سے واقف تھی، اردو میں صاحبِ دیوان تھی اور اس فن میں ہندوستان میں سب سے پہلی صاحب دیوان عورت تھی۔ اس کو نواب کے خواصوں میں داخل ہونے کی بڑی آرزو تھی مگر نواب نے کبھی دست مواصلت دراز نہ کیا مگر اس کے قدردان تھے ، اس کا رقص ملاحظہ کرتے اور چندا سے خوب صحبت رہنے لگی تھی۔""
پھر راحت عزمی اس اقتباس کے بعد لکھتے ہیں۔۔۔
اس اقتباس پر تبصرہ کرتے ہوئے شفقت رضوی ، عابد علی خان (مدیر روزنامہ سیاست، حیدرآباد) کی مرتب کردہ کتاب "صورت گران دکن" میں لکھتے ہیں (صفحہ: 172):
اہل علم نے اس اقتباس کو ملاحظہ کرکے اندازہ کر لیا ہوگا کہ الفاظ کے طوطے مینا اڑانا اور ہے، تاریخ نویسی کا حق ادا کرنا اور۔ رامپوری صاحب اس حقیقت کو نظرانداز کر گئے کہ نواب صاحب کے بڑے بیٹے سید احمد علی خان عالیجاہ کا انتقال 1210ھ میں ہوا جبکہ چندا کم عمری سے ہی تقریب شاہی سے سرفراز تھی۔
راحت عزمی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
آصف جاہ ثانی کی عمر اپنے فرزند عالیجاہ کے انتقال کے وقت (60) سال کی تھی، کیا ساٹھ سال کی عمر میں جوان بیٹے کی موت کے صدمے کو دور کرنے کے لیے ایک ضعیف باپ کے لیے عیش و عشرت کے سامان کامیاب ہو سکتے ہیں؟ راگ رنگ کی بزم اگر آراستہ بھی ہوتی رہے تو جوان بیٹے کی موت کے صدمے کا علاج نہیں بن سکتی۔ نجم الغنی کا دیا ہوا اقتباس دکن کی تہذیب کو مسخ کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔ کیونکہ اسی آصف جاہ ثانی نے (اپنے وزیراعظم) ارسطو جاہ کے بیٹے کے انتقال اور ان کے حواس کھو دینے پر اپنے بیٹے (سکندر جاہ) کو ان کی گود میں یہ کہہ کر دے دیا تھا کہ وہ انہیں اپنے مذہب پر تربیت کر سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ کیا ایسا درد مند دل رکھنے والا فرمانروا اپنے بیٹے کا غم غلط کرنے کے لیے ناچ رنگ کو ذریعہ بنا سکتا ہے؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں