برائی کی اشاعت اور اس کی تشہیر کے نقصانات - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2023/05/05

برائی کی اشاعت اور اس کی تشہیر کے نقصانات

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
5/مئی/2023ء
*****


ارشادِ باری تعالیٰ ہے ؛
لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بِالسُّوْءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ طُلِمَ
برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے۔
(النساء ؛ 148)
شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو، بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ ، اِلّا یہ کہ کوئی دینی مصلحت ہو۔ اسی طرح کھلے عام اور علی الاعلان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے ، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا ، اسے برسرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے اور اس کی وجہ سے اس برائی کا جرم دگنا بلکہ دس گنا بھی ہو سکتا ہے۔


عموماً کہا جاتا ہے کہ ۔۔۔ ذاتی برائی کو چھپانے کا ذکر شریعت میں بیان ہوا ہے۔ جبکہ قرآن میں تو جابجا اجتماعی برائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا رد کیا گیا ہے۔
مگر یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کسی برائی کے اجتماعی سطح پر فروغ یا عمل کی شناخت کا انسانی پیمانہ کیا ہے؟ اور اگر کسی سروے سے یہ پتا چلا بھی لیا جائے تو اس کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی یا اس سروے کے نتائج کی تشہیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے گا؟ کیا اس قسم کی محض "تشہیر" متذکرہ برائی کو ختم کرے گی یا اسے مزید استحکام عطا کرے گی؟ خاص طور پر اس صورت میں کہ انسان کمزور واقع ہوا ہے اور بھلائی کی بہ نسبت برائی کی طرف جلد راغب ہوتا ہے۔


سید سعادت اللہ حسینی اپنے مضمون "اصلاح معاشرہ اور سماجی معمولات" (شائع شدہ: زندگی نو، مارچ 2021ء) میں لکھتے ہیں ۔۔۔

ایک بڑی اہم بات جو خاص طور پر نوٹ کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ:
غلط معمولات کی تشہیر ان کو مزید مستحکم کرتی ہے،خاص طور پر اس وقت جب یہ بات سامنے لائی جاتی ہے کہ معاشرے میں اس برائی کا بکثرت لوگ ارتکاب کر رہے ہیں۔
سماجی معمول بنتا ہی اس لیے ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے یہ کام کر رہے ہیں۔ اس لیے ان پر عمل کے جتنے زیادہ واقعات علم میں آتے جائیں گے، یہ یقین اور مستحکم ہوگا کہ یہ عمل سماج میں عام اور سماج کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔


عام طور پر مصلحین یہ غلطی کرتے ہیں کہ کسی غلط عمل کی اصلاح کے لیے اس برائی کے پھیلاؤ اور اس کی قبولیتِ عامہ کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں۔
مثلاً چند برسوں سے اس مسئلے کی بہت دھوم ہے کہ مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادیاں کر رہی ہیں۔ مقررین اور وہاٹس اپ مصلحین، اس رجحان کو مبالغے کے ساتھ، اعداد و شمار کے حوالوں سے بہ تکرار بیان کرتے ہیں۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں اس عمل کی قباحت اور اس کے ابنارمل ہونے کا احساس ختم ہونے لگتا ہے۔ یہ معلومات کہ اب اس برائی کو سماج میں بہت سے لوگوں نے اختیار کر لیا ہے، اسے نارمل بنا دیتا ہے۔ یوں ایسے طرزِ عمل سے، متذکرہ برائی کو ختم کرنے میں مدد نہیں ملتی بلکہ وہ مستحکم ہوتی جاتی ہے۔


اسلام کی اخلاقی تعلیمات کا ایک اہم امتیاز یہ ہے کہ برائی کی ٹوہ اور تجسس کو نیز اپنی یا دوسروں کی برائیوں کی تشہیر کو اس نے ایک اخلاقی جرم قرار دیا ہے۔ بعض مذہبی فلسفوں میں گناہوں کے عوامی اعتراف (confession) کو ایک اخلاقی خوبی سمجھا جاتا ہے۔ اسلام نے اس کے مقابلے میں گناہوں کو چھپانے کا حکم دیا ہے۔ اپنے گناہوں کو بھی اور دوسروں کی ایسی غلط کاریوں کو بھی جن کے اخفا سے کوئی بڑا عوامی نقصان درپیش نہ ہو۔


برائی کی مسلسل تشہیر سے ضمیر اس برائی سے مانوس ہونے لگتا ہے اور اسے نارمل سمجھنے لگتا ہے۔ اس لیے اصلاحی کوششوں میں یہ ہدف نہایت ضروری ہے کہ برائی کو ایک ناپسندیدہ ہی نہیں بلکہ نامانوس اور خلاف معمول (abnormal) چیز بنایا جائے اور اس کے لیے منصوبہ بند کوشش کی جائے۔ اس برائی کے مقابلے میں معاشرے میں جو اچھائی پائی جاتی ہے، اس کو مشہور کیا جائے۔


مسلم معاشرے میں ایسے کئی خاندان، گروہ یا محلے ہوں گے جہاں جھوٹ، دروٖغ گوئی، بدزبانی، بددیانتی، دھوکہ دہی جیسی لاتعداد برائیاں پنپ رہی ہیں مگر ہم فلاں فلاں کا نام لے کر اجتماعی تشہیر نہیں کرتے۔۔۔ تو پھر کیوں ہم غیروں کے پھیلائے گئے پروپگنڈہ کا شکار ہو کر انہیں پھیلانے پر کمربستہ ہیں کہ: "مسلمان لڑکیاں ارتداد کا مسلسل شکار ہو رہی ہیں!"
کیا اس برائی کی محض تشہیر سے ہماری آپ کی بہنیں بیٹیاں محفوظ ہو جائیں گی؟
اگر نہیں تو خدارا ہوش کی دوا کریں اور اس قسم کی منفی تشہیر میں حصہ لینے کے بجائے، اس کی روک تھام کی کوششوں میں اپنا وقت لگائیے، اس کے مقابلے میں اچھائیوں کو فروغ دیجیے، بہنوں بیٹیوں کے مورال کو بلند کرنے کی سعی کیجیے۔

Stop the evil propaganda.

1 تبصرہ: