© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
28/اپریل/2023ء
*****
آج کی نمازِ جمعہ کے دوران مسجد میں کچھ مشاہدات۔
اذاں و اقامت کے دوران دیکھا گیا کہ نبی کریم ﷺ کے اسمِ گرامی پر چند مصلیان نے انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر پھیرے۔۔ ایک صاحب کو دیکھا کہ سنت/نفل کے آخری تشہد کی دعاؤں کے بعد سلام پھیرنے سے قبل شرٹ کا کالر ہٹا کر انہوں نے سینے پر پھونک ماری۔ جمعہ کی فرض نماز کے بعد (یا عام دنوں کی پنج وقتہ نمازوں کے بعد) امام صاحب کی طرف سے اجتماعی دعا کا لزوم اور نمازیوں کی اس دعا میں لازمی شرکت کا احترام و التزام۔
حالانکہ یہ تینوں باتیں کسی مستند حدیث سے نہ ثابت ہیں اور نہ ہی عبادات کا حصہ ہیں۔ البتہ ان پر چھوٹتے ہی اعتراض کر بیٹھنا اس لیے بھی مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ ممکن ہے کہ یہ سب لاعلمی کے باعث ہو یا بزرگوں سے چلی آ رہی روایات پر کاربند رہنے کا معاملہ ہو۔ دوسروں سے کیا شکایت کہ ہم خود بھی ایک زمانے میں، (لاعلمی کے سبب) ان روایات پر پابندی سے عمل پیرا رہے ہیں۔
ہم علماء و مصلحین کو بھی دوش نہیں دینا چاہتے کہ یہ انفرادی و اجتماعی معاملہ متعلقہ میدان کے مصلحین کے ذمہ ہے اور یہ کام گراؤنڈ لیول پر نبھانا چاہیے نہ کہ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر قلمی تو تڑاخ کی جائے۔
ہماری عرض گذارش صرف اتنی ہے کہ ۔۔۔۔
ٹھیک ہے مان لیا کہ سادہ لوح عوام کے پاس اتنا سنجیدہ وقت نہیں کہ تحقیق کرتے بیٹھیں کیا درست ہے اور کیا نادرست؟
لیکن ۔۔۔ جو باتیں صحیح سند سے ثابت ہیں اور جن کی تکرار جمعہ کے خطبوں اور دینی مجالس میں کی جاتی رہی ہے ۔۔۔ کم از کم ان پر تو ہم سب سنجیدگی سے عمل پیرا ہونے کی روش اپنائیں۔ مثلاً یہ تین معاملات ملاحظہ فرمائیں:
(1) جمعہ کی نماز کے دوران گردنیں پھلانگ کر آگے جانا
جمعہ کو جب مسجد میں داخل ہوں تو جہاں جگہ مل جائے بیٹھ جانا چاہیے، لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر آگے جگہ حاصل کرنا مقصود ہو تو مسجد کو جلد آئیں تاکہ اگلی صف میں جگہ ملے اور پہلے آنے کا ثواب بھی مل جائے۔
حدیث:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے تو ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آگے آنے لگا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے لوگوں کو تکلیف پہنچائی ہے اور (آنے میں) دیر کی ہے۔
(ابوداؤد ، مسند احمد)
(2) اپنا کام خوش اسلوبی اور مہارت سے نپٹائیں
ہم کسی بھی میدان کے ماہر ہوں، کسی دفتر میں ملازم ہوں، کاروباری ہوں، ڈاکٹر انجینئر وکیل صحافی ہوں، خانہ دار خاتون ہوں ۔۔۔ اپنا کام ایمانداری، اپنی قابلیت و مہارت کے حساب سے ادا کرنے کی ممکنہ کوشش کرنی چاہیے۔
حدیث:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بےشک اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جب کوئی کام کرے تو خوش اسلوبی اور مہارت سے کرے۔
(طبرانی المعجم الاوسط، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ : ح:1113)
(3) مہمان کی ضیافت کریں
یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ اپنے مہمان کی دستور کے موافق ہر طرح سے عزت کرنی چاہیے اور کم از کم ایک دن اور ایک رات مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے۔ (دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کامل ضیافت تین دن ہے)۔ ویسے ضیافت کا معاملہ دور سے سفر کرکے آنے والوں سے متعلق ہے، جو قریب سے زیارت کرنے آئے یا یونہی ملنے جلنے والے لوگوں کے لئے میزبان پر ضیافت کرنا واجب نہیں ہے۔ البتہ ملاقات کے لیے جو مہمان حاضر ہو تو بغیر تکلف کے جو بن سکے پیش کرنا چاہئے خواہ ایک گلاس پانی ہی سہی۔ صرف کھڑے کھڑے باتوں پر نہیں ٹرخانا چاہیے۔
حدیث:
فرمانِ نبوی ہے کہ : اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں ہے جو میزبانی نہ کرے۔
(صحیح الجامع)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں