© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
18/اپریل/2023ء
*****
عقیدہ اور عبادت
یہ دو ایسے اہم معاملات ہیں جہاں خود تراشیدہ "میری مرضی" یا خود ساختہ "میرا یقین" کا کوئی گزر نہیں۔
ہم دین یا عبادات کے نام پر کچھ بھی دعائیں کریں یا ذکر و اذکار، وظائف کا ورد کریں ۔۔۔ اس پر کسی کو کوئی اعتراض کا حق بےشک نہیں بنتا۔
البتہ یہاں باریکی کی ایک بات یہ ہے کہ ۔۔۔ عبادت (چاہے وہ دعا یا ذکر و اذکار ہی کیوں نہ ہو) کو بلا شرعی دلیل کے، کسی عدد، کیفیت یا کسی مخصوص دن یا جگہ یا وقت سے جوڑ دیا جائے تو ۔۔۔ یہ تھوڑا سنجیدہ اور متنازعہ مسئلہ بن جاتا ہے لہذا اس ضمن میں علماء و فقہاء کرام کی اکثریت دلائل کی بنیاد پر ایسے ذکر و اذکار سے بھی روکتی ہے۔ جیسا کہ مولانا قاسم نانوتویؒ کے ایک قول کے مفہوم کے بموجب:
واضح رہے کہ کوئی دینی فریضہ اور عبادت بغیر حکمِ شارعؐ کے، واجب الاعتقاد یا ضروری العمل نہں ہو سکتا، یعنی:
"عبادات توقیفی ہیں اس میں عقل قیاس کا کوئی دخل نہیں"
بالفاظ دیگر: عبادات کے اصل عدد، کیفیت اور جگہ کے بارے میں کسی شرعی دلیل کی بنیاد پر ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مشروع ہے، بصورت دیگر، یہ عبادت نہیں بلکہ دین میں بدعت ہے۔
اور دین کا یہ درج بالا ضابطہ (عبادات توقیفی ہیں) تقریباً تمام ہی مکاتبِ فکر کے نزدیک مستند کلیہ ہے۔
اللہ اور رسول (ﷺ) کے فرامین کے مطابق دعا بھی عین عبادت ہے، لہذا دعا کے معاملے میں بھی شریعت کی طےشدہ حدود کو توڑا نہیں جا سکتا۔
اگر ہم کہیں کہ اللہ تعالی انسان کی نیت اور دل کا جذبہ و ایمان دیکھتا ہے لہذا طریقہ یا rituals کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے تو عبادت کے تعلق سے ایسا کہنا گویا نبی ﷺ کے حکم کے خلاف جانا ہے۔ کیونکہ ہمارے پیارے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
من عمل عملا ليس علیہ امرنا فهو رد
"جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ مردود ہے"
(صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلۃ اور صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
سنن دارمی میں صحیح سند کے ساتھ صحابی عبداللہ بن مسعودؓ کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے کوفہ کی ایک مسجد میں چند نمازیوں کو کنکریوں پر سو سو مرتبہ تسبیحات (اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ) پڑھتے دیکھا تو انہیں کنکریاں مار مار کر مسجد سے یہ کہتے ہوئے باہر نکال دیا کہ: تم بدعت نکال لاتے ہو یا تم محمدﷺ کے صحابہ سے علم میں بڑھ چکے ہو؟
ان لوگوں نے عرض کیا کہ: "اللہ کی قسم، ہمارا ارادہ صرف نیک ہے۔"
حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا: "کتنے نیکی کے خواہش مند ایسے ہیں جو نیکی نہیں کرتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا اور اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم، ہو سکتا ہے ان میں سے اکثریت تم لوگوں کی ہو۔"
تو جو کوئی دوست کسی بھی وظیفے یا تسبیح میں کسی بھی قسم کا عقیدہ یا یقین رکھ کر عمل کرتے ہیں ۔۔۔ تو یہ ان کا انفرادی معاملہ ہے۔۔۔ ہم بہرحال علم و عمل میں کسی صحابی کے پیروں کی دھول بھی نہیں کہ انہیں کنکریاں ماریں یا ان کا مضحکہ اڑائیں۔ چونکہ اللہ کے ہاں جوابدہ تو فاعل ہوگا ہم نہیں، لہذا ہمارے لیے خاموشی ہی بہترین عمل ہے۔
البتہ جب کوئی تھوڑا آگے بڑھ کر، دین کا سہارا لے کر ایسے "نیک اعمال" کی ترغیب دلائے یا تبلیغ کرے تب خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ ایسے معاملے میں دین کے واضح ارشادات کو عوام کی ناراضگی کے پیش نظر چھپایا نہیں جا سکتا۔
اس وقت تو بات اور بھی سنگین ہو جاتی ہے جب مبلغ یا مشورہ دینے والا دینی وظائف کے ورد کا طریقہ کار بتاتے ہوئے ان سے حاصل ہونے والے فائدے یا فوائد کا بھی تیقن دے۔ بےشک کسی کو فائدہ ہوتا ہو، مگر جیسا کہ پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ عبادت کے معاملے میں "قیاس" نہیں چل سکتا۔ ورنہ ایک کاہن اور نجومی جو پیشین گوئی کرتا ہے وہ کبھی کبھار سچ بھی تو نکلتی ہے ۔۔۔ مگر اس کے باوجود دین میں کاہنوں اور نجومیوں کے پاس نہ جانے اور ان کی بات پر یقین نہ رکھنے کا سخت حکم دیا گیا ہے۔
بہرحال سو باتوں کی صرف ایک بات بس اتنی کہ:
ساری خیر و برکت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں ہے!!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں