دکن کی بہمنی سلطنت اور سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کا مقبرہ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2023/04/07

دکن کی بہمنی سلطنت اور سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کا مقبرہ

bidar karnataka ahmad shah wali bahmani tomb

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
7/اپریل/2023ء
*****


وہ دَور اب دُور تو نہیں ہے
کہ وقت جب منصفی کرے گا
کبھی تو تاریخ کی عدالت میں
تم بھی آؤ گے
ہم بھی آئیں گے
ہمارے ادراک کی صداقت
تمہارے الزام کی نجابت
کبھی تو تاریخ کی عدالت میں پیش ہوگی !!
(حسن حمیدی)


ہمیں کون سا اپنے اسکولی نصاب کی باتیں یاد ہیں؟ مگر جب کوئی مشہور عمارت دیکھتے ہیں یا کوئی آثارِ قدیمہ تو آج کی نسل کی طرح گوگل کھوجنے لگ جاتے ہیں اور یوں معلومات کا انبار سامنے بہا چلا آتا ہے۔ اسکول کے نصاب سے تاریخ کے اسباق ہٹانے والے نئی تاریخ کے وارث نہیں بنیں گے بلکہ وارث تو بےشک وہ عالمی قلم بنیں گے جو دنیا کی ہر زبان میں وہ سب کچھ بےدھڑک بلاجھجھک لکھیں گے جس کو کوئی متعصب حکمراں طبقہ چھپانے/مٹانے کی ناکام سعی کرے گا۔

bidar karnataka ahmad shah wali bahmani tomb

یہ تصویریں، جنوبی ہند کی بہمنی سلطنت کے سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کے مقبرہ کی ہیں جو کرناٹک کے شہر بیدر میں آثارِ قدیمہ کی شکل میں آج بھی محفوظ ہے۔ مولوی محمد ظہیر الدین اپنی کتاب "سلطان احمد شاہ بہمنی" (سنہ اشاعت: 1937ء) میں لکھتے ہیں کہ: سابق ریاست حیدرآباد دکن کے ہندو ہوں یا مسلمان، احمد شاہ کو "ولی اللہ" مانتے رہے ہیں اور ان کا نام نہایت تعظیم سے لیا کرتے ہیں۔


ممتاز مورخ و مصنف ہارون خاں شیروانی اپنی کتاب "دکن کے بہمنی سلاطین" (سنہ اشاعت: 1978ء) میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔
بہمنی تاریخ قرون وسطیٰ کی تاریخ کا نہایت اہم حصہ ہے جو متحدہ دکن کے عہد کا ہمعصر بھی ہے۔ بہمنیوں کے پہلے کا قرون وسطیٰ کا دکن صرف نصف صدی تک رہا جب کہ اس ملک پر سلاطین دہلی کی متزلزل حکومت تھی اور بہمنیوں کے سقوط کے وقت سے لے کر آصف جاہی حکومت کے قیام تک کا زمانہ بالکل انتشار کا زمانہ تھا۔ بہمنیوں کا اہم ترین مقصد آبادی کے مختلف فرقوں میں ربط پیدا کرنا تھا اور وہ لوگوں کے فنون، تعمیر اور زندگی پر کلچرل ردعمل کے حوالے سے بڑی حد تک کامیاب ہوئے۔

bidar karnataka ahmad shah wali bahmani tomb

.
bidar karnataka ahmad shah wali bahmani tomb

ہارون خان شیروانی اپنی اسی کتاب کے صفحہ:149 پر احمد شاہ کے مقبرہ کے تعارف میں لکھتے ہیں:
احمد شاہ کا مقبرہ ان کی ایک ایسی یادگار ہے جس نے بیدر کو پچھتر سال تک ایک طرز کا نمونہ دیا۔ یہ کئی مقبروں کی قطار میں سب سے پہلا ہے۔ احمد شاہ کے مقبرہ کو باہر سے دیکھنے پر دو نہیں بلکہ تین منزلیں معلوم ہوتی ہیں اور چاروں سمت داخلہ کے دروازوں پر جو محرابیں ہیں وہ بہت زیادہ بلند اور شاندار ہیں۔
اس مقبرہ کے استحکام کا تصور اس لیے زیادہ قوی ہو جاتا ہے کہ اس کے کناروں کے گلدان بہت چھوٹے ہیں اور پرانے تغلق طرز کے گنبد کے بجائے شاندار بیضوی گنبد ہے جو ایک بھاری چرخ پر رکھا ہے جس کا اوپری حصہ منقش ہے لیکن بیرونی حصہ سے زیادہ اندرونی حصہ کے نقش و نگار میں گلبرگہ کی عمارت کے طرز سے بہت فرق نظر آتا ہے۔
اندر کی آرائش کی نگرانی خوش نویس مغیث شیرازی نے کی تھی جو شاید شیعہ مذہب سے تعلق رکھتا تھا اور جس نے پیغمبرؐ اسلام اور چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ کا نام سیکڑوں طرز سے لکھا ہے۔
مقبرہ میں داخل ہوتے ہی اس کی عظمت اور حزن کی کیفیت ذہن پر مسلط ہو جاتی ہے اور اس کی وسعت کا اثر کچھ اس طرح کا ہوتا ہے جیسے کمتر پیمانے پر استنبول کی مسجد کا۔ اس میں عربی طرز کے ہر خط کوفی، طغرا، نسخ وغیرہ کے نمونے ہیں اور شاید اندر کی تاریکی کے خیال سے کتبے سنہرے اور قرمزی رنگ کے ہیں اور ان کی بنیاد بھی شوخ رنگ کی ہے جس میں جابجا چمک دار جواہرات جڑے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان میں بعض بیش قیمت اصلی ہیرے ہیں۔
احمد شاہ کے مقبرے کا اندرونی حصہ یقیناً قرون وسطیٰ کے ہندوستان کی فن خطاطی کا شاہکار کہا جا سکتا ہے۔


***

شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی آواز یاد آئی :
میری یاد ہوگی، جدھر جاؤ گے تم
کبھی نغمہ بن کے، کبھی بن کے آنسو
شمع جو جلائی میری وفا نے
بجھانا بھی چاہو، بجھا نہ سکو گے!!
مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے!!

The Bahmani Sultanate in Deccan and the tomb of Ahmad Shah I Wali in Bidar, Karnataka , India.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں