© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
30/مارچ/2023ء
*****
"کیا جی، کچن میں گھسا دئے میر کو اور خود فوٹواں لگا کے اکیلے داداں سمیٹتے رہتے ۔۔۔ جبکہ ہم بھی اردو لٹریچر کے پی۔جی ہیں اور ہمارا بھی ہے ادبی ذوق اعلیٰ والا ۔۔۔"
کل رات بیگم نے ناک پہ مصنوی غصہ دھرے چٹخ کر کہا۔
ہاتھ میں تھما عزیز قیسی کا مجموعہ "گرد باد" جلدی سے بازو رکھا اور ہاتھ جوڑ کر فرمایا:
"پھر تو کوئی شعر ارشاد ہو ۔۔۔"
"اسی کتاب سے میری پسند کا ایک شعر سنیے ۔۔۔۔"
پھر بیگم نے یہ شعر سنایا ۔۔۔ مگر اس کمال سے کہ۔۔۔ مصرع اولیٰ تو خالص تحت اللفظ میں ہمارے پھوپھا مرحوم غیاث متین کے مخصوص اندازِ دلفریب میں، پر مصرع ثانی پرانے شہر حیدرآباد کی عورتوں کے کٹ کھنے لہجے میں ہاتھ نچاتے ہوئے:
تمہاری جیب خالی ہے تو قیسی
ادب کیا، شعر کیا، فن کیا، ہنر کیا
***
عزیز قیسی حیدرآباد (دکن) ہی نہیں اردو ادبی دنیا کا ایک مشہور و مقبول نام ہے۔ ان کے ادبی قد و قامت و صلاحیتوں کے اظہار میں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ انہوں نے شعر کہے، افسانے لکھے، اسٹیج اور ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھے، فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے لکھے، تنقید و تبصرہ کے میدان میں بھی اپنی شناخت قائم کی۔
بالی ووڈ کامیڈین محمود کی فلم کنوارہ باپ (1974ء) کی کہانی انہوں نے لکھی تھی، امیتابھ بچن کی فلم بنسی برجو (1972ء) کی کہانی، اسکرین پلے اور مکالمے انہی کے تحریرکردہ تھے۔ فیروز خان کی مشہور فلم دیاوان (1988) جو دراصل کمل ہاسن کی سپرہٹ تمل فلم نیاکن (1987) کی ریمیک تھی، کے مکالمے اور (دو) نغمے عزیز قیسی نے ہی لکھے تھے۔
عزیز قیسی نے اپنی شاعری سے متعلق جو نقطۂ نظر بیان کیا ہے وہ واقعتاً پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہے۔ ذیل میں ان کے متذکرہ شعری مجموعہ "گرد باد" کے پیش لفظ سے ماخوذ دو پیراگراف ملاحظہ کیجیے ۔۔۔۔
میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں نے کسی کی تقلید نہیں کی۔ بچپن میں میں نے نظیر اکبرآبادی، اقبال، جوش، انیس اور اختر شیرانی کو بڑی عقیدت سے پڑھا ہے۔ ہوش مندی کی عمر میں مخدوم، سردار جعفری، کیفی اعظمی، مجاز، مجروح، جاں نثار اختر، جذبی اور دوسرے ترقی پسند شعراء کو بڑی محبت سے پڑھا اور سنا ہے۔ ان سب شاعروں کے اسلوب، لہجے اور ڈکشن سے میں نے غیرشعوری طور پر کیا کیا اخذ و اکتساب کیا، میں نہیں جانتا۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ "اخذ و اکتساب" اگر جرم ہے تو اس جرم سے کوئی بری نہیں۔ روایات سے کوئی دامن بچا سکتا ہے نہ انہیں پورے طور پر بدل سکتا ہے۔
میں مانتا ہوں خیال اور جذبہ شعر کی روح ہے اور بیان اس کا جسم، لفظ، شاعری کا میڈیم ہے۔ شاعری لفظون کا فن ہے۔ اور لفظوں کی ترتیب، تہذیب، تجسیم، تشخیص اور تشکیل۔ ہنر، کرب ذات کا اظہار ہو یا درد عصر کا۔ داخلی شاعری ہو یا خارجی۔ بیان کے بغیر شاعری بےوجود ہے۔ لہجہ اور اسلوب اپنی جگہ کوئی "قائم بالذات" وجود نہیں رکھتے۔ تجربہ، احساس، جذبہ، خیال اور موضوع، لہجے اور اسلوب کا تعین کرتے ہیں۔
راقم الحروف کی خوش قسمتی ہے کہ اپنے تعلیمی زمانے کے دوران عزیز قیسی کو مشاعروں میں سننے/دیکھنے کا موقع ملا اور ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا۔ عزیز قیسی کے اس مجموعہ سے اپنے چند پسندیدہ اشعار پیش خدمت ہیں:
نہ مڑ کے دیکھے گی دنیا مرو نہ گھٹ گھٹ کے |
یہ حادثوں پہ ہی بس چونکنے کی عادی ہے! |
قیسی صاحب بستی بستی کھوٹے سکوں کا ہے چلن |
یہ مت پوچھو اہلِ ہنر کے حسنِ کمال پہ کیا گزری |
یوں وقت بدلنے پہ ہنر لگتے ہیں قیسی |
منسوب تھے جو عیب مری ذات سے پہلے |
کتبوں کی طرح قیسی جسموں پہ ہیں آویزاں |
یہ جانے ہوئے چہرے یہ مانے ہوئے چہرے |
سحر سے شام ہوئی صرف گفتگو کب تک |
لفافہ بند کر اور اس کو لب سے چپکا دے |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں