خواتین ڈائجسٹوں میں عربی فارسی زدہ نام اور ایک افسانچہ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2023/02/21

خواتین ڈائجسٹوں میں عربی فارسی زدہ نام اور ایک افسانچہ

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
21/فروری/2023ء
*****


عالمی یومِ مادری زبان پر پیش ہے ایک پرانی ڈائری کا ایک دلچسپ صفحہ ۔۔۔
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ ۔۔۔


وہ اخبار بینی، کتب و رسائل کے مطالعے کا سنہرا دور تھا یعنی بیسویں صدی کی آٹھویں/نویں دہائی۔ اس خاکسار کا سب سے زیادہ مطالعہ، یوں کہہ لیں کہ پچاسوں صفحات کا روزانہ بلاناغہ مطالعہ انہی دو دہائیوں کا رہینِ منت ہے۔ اب مطالعہ بولے تو وہ چٹ پٹے خواتین ڈائجسٹ بھی ان میں شامل تھے جن کی تخلیقات میں ہیرو/ہیروئین کے منفرد نام، ہیروئین کی محیر العقل نزاکتیں مہارتیں اور ہیرو صاحب کی یونانی دیوتاؤں کو مات دیتی ہوئی ڈیشنگ پرسنالیٹی۔ والد صاحب سعودی عرب سے چھٹی پر آتے ہوئے متعدد پاکستانی رسائلِ مستورات والدہ اور بہنوں کے لیے لے آتے تھے۔۔۔ خواتین ڈائجسٹ، شعاع، کرن، آنچل، پاکیزہ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور سرحد کے اِس پار ہمارے ہاں پاکستانی ڈائجسٹوں سے چوری شدہ مال پر مبنی پاکیزہ آنچل، مہکتا آنچل، گلابی کرن الا بلا بلاہ تو ماہانہ بہ پابندی خریدے جاتے تھے ہی۔


دو چیزیں خوب سیکھیں: عربی/فارسی زدہ نام اور رومانی فقرے۔
رومانی فقرے اتنے کہ کالج کے کچھ دوست دیوناگری یا رومن رسم الخط میں لکھوا لے جاتے تھے کہ انٹر کالج ثقافتی مقابلوں کے دوران صنف نازک پر ڈورے ڈالے جائیں۔ خالص اردو ڈائجسٹی مکالموں کا تو ہمارے سماج میں چلنا ذرا مشکل تھا، لہذا دوستوں کی فرمائش پر بڑی مشاقی سے بالی ووڈ طرز اور لہجہ میں ہماری جانب سے انہیں منتقل کر دیا جاتا۔ میرے دوست #مرزا تو کہتے ہیں کہ انیل کپور کی تیزاب (ریلیز: 1988) ، سیف علی خان کی میں کھلاڑی تو اناڑی (ریلیز: 1994) اور شاہ رخ خان کی کبھی ہاں کبھی ناں (ریلیز: 1994) کے ٹپوری کردار سے ہی اس وقت کے نوجوان زیادہ متاثر تھے۔
ایک بار اتفاقاً گھر کے باہر چند ادب نواز دوستوں سے اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ ایک دوست نے بڑی دلچسپی سے کہا کہ ذرا انہیں بھی پڑھایا جائے کہ میں بالی ووڈ طرز پر ڈائجسٹی مکالموں کو کیسے منتقل کرتا ہوں؟ ہمارے ہم مزاج عظیم قریشی نے آنکھ مار کر مخصوص اشارہ کیا اور میں نے اشارہ سمجھ کر فوراً جواب دیا کہ: ابھی دیتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ پورا صفحہ بلند آواز میں سب کے سامنے پڑھ کر سنانا ہوگا۔


شرط مان لی گئی۔ میں نے جلدی جلدی رسالہ "شاعر" کے ایک شمارے سے ایک مخصوص پیراگراف کاغذ پر نقل کیا اور کاغذ لا کر ہمارے اس باذوق مذہب پرست دوست کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اب وہ زبان روک کر پڑھتے جاتے، شعلہ بار نظروں سے گھور کر ہم دونوں (مکرم نیاز + عظیم قریشی) کو دیکھتے دیکھتے پوری تحریر پڑھ ڈالی۔
"آآخ تھووو" کہہ کر تھوکا ۔۔۔ خشوع و خضوع سے لاحول ولا قوۃ الا باللہ کا ورد کیا اور کاغذ کے پرزے پرزے کر ڈالے۔۔۔ پھر جو ناراض ہوکر گئے تو مہینوں پلٹ کر نہیں دیکھا۔
(آج موصوف ایک قومی تعلیمی ادارے کے ایک معزز و موقر عہدیدار ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اس وقت یہ تحریر پڑھتے ہوئے مسکرا رہے ہوں گے)۔
ہاں یہ بتانا بھول گیا کہ جو تحریر "شاعر" سے نقل کی تھی وہ ساقی فاروقی کی پاپ بیتی کا دو آدھے آدھے چاند والا خوفناک پیراگراف تھا۔


ناموں والی بات رہ گئی۔ اُس وقت (1985ء) سے لے کر آج تک میں یہ سمجھنے سے سچ مچ قاصر ہوں کہ پاکستانی ناول/ناولٹ/افسانہ میں عربی/فارسی زدہ نسائی ناموں کا چلن کیسے اور کیونکر شروع ہوا؟ کیا آج بھی یہ رجحان جاری ہے یا ختم ہو گیا ۔۔۔ اس کا کچھ علم نہیں کہ کوئی دو ڈھائی عشروں سے خواتین ڈائجسٹ مطالعہ سے نہیں گزرے۔
مسئلہ یہ ہوا تھا کہ ایک بار کسی کزن کی پیدائش پر بڑوں نے نام طلب کیے کہ موجودہ ٹرینڈ کے نام شاید ہم کتب و رسائل کا مطالعہ کرنے والے بہتر جانتے ہوں۔ سو ہم نے انہی رسائل سے منتخب چند نام بتا دئے جو اپنی انفرادیت کے سبب خاصے پسند کیے گئے۔ پھر اس کے بعد چل سو چل ۔۔۔ کسی بچی کی خاندان میں پیدائش ہوتی اور کہہ دیا جاتا کہ مکرم یا اس کی بہن سے نام پوچھ لو، ایک سے ایک شاندار نام بتاتے دیکھو!!


مگر سچی بات تو یہ تھی کہ میں اور میرے ہم مزاج رفیق، عظیم قریشی اس قسم کے ناموں سے خاصے چڑتے تھے اور ایسے ناموں پر ایک سے ایک نادر لطیفہ تخلیق بھی کرتے تھے۔ تو میرا یہ مختصر افسانچہ ہمارے اسی دور کے نٹ کھٹ مذاق کی روداد ہے۔ ملاحظہ فرمائیے گا ۔۔۔۔


***
"معاف کیجیے گا"
افسانچہ از: مکرم نیاز


اگر خواب حقیقت بن جائیں تو ۔۔۔؟
معاف کیجیے، خواب کبھی حقیقت نہیں بن سکتے۔
اگر بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو ۔۔۔
دوبارہ معاف کیجیے گا، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔
اوہ ۔۔۔ یو سِلی گرل ۔۔۔
دیکھیے، ذرا زبان سنبھال کر گفتگو کیا کریں۔
سوری، لیکن تم سمجھنے کی کوشش تو کرو۔ بھلا فرض کرنے میں آخر کیا خامی ہے؟
معاف کیجیے، پہلے آپ خود صحیح بات کہنا تو جانیں۔
دیکھو سویٹی ۔۔۔
معاف کیجیے، آپ مجھے سویٹی کہنے کا حق نہیں رکھتے۔
اوہ مائی گاڈ، تم تو اچھے خاصے رومانٹک موڈ کو غارت کیے جا رہی ہو۔
معاف کیجیے، گفتگو کے لیے کیا رومانٹک موڈ کا ہونا اشد ضروری ہے؟
بالکل، آخر ہم دونوں ایک دوسرے کے رازداں ہیں، دوست ہیں اور ۔۔۔
معاف کیجیے محترم، آپ آخر کس خوش فہمی میں ہیں؟
کیا مطلب، میں سمجھا نہیں ۔۔۔
معاف کیجیے گا، غالباً آپ "نقاب" کی وجہ سے دھوکہ کھا گئے ہیں، ورنہ میں تو آپ سے پہلی مرتبہ ہمکلام ہوں ۔۔۔
ہائیں ، تو کیا ۔۔۔ تو کیا تمہارا نام حنا شیریں نہیں؟
معاف کیجیے جناب، میرا نام تو حمیدہ خاتون ہے ۔۔۔!!
؟ ؟ ۔۔۔ * * ۔۔۔ __ __ ۔۔۔ !!

Unique names trend in Urdu women magazines and a mini story by Mukarram Niyaz.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں