© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
12/فروری/2023ء
*****
اردو کلچرل ہیریٹیج فاؤنڈیشن حیدرآباد دکن کی جانب سے ڈاکٹر شہاب افسر خان (ڈائریکٹر ونچسٹر انٹرنیشنل اسکول، اورنگ آباد، مہاراشٹرا اور سابق پرنسپل انٹرنیشنل انڈین اسکول، ریاض سعودی عرب) کے افسانوں کے مجموعے "میرے افسانے" کی رسم اجراء ڈاکٹر رفعت حسین انصاری کے ہاتھوں گواہ آڈیٹوریم (عابڈز، حیدرآباد) میں بروز ہفتہ 11/فروری کی شام عمل میں آئی۔ تقریب کے مہمان خصوصی جناب احمد ندیم (پرنسپل سکریٹری اقلیتی ڈپارٹمنٹ حکومت تلنگانہ) اور معروف فکشن نگار صادقہ نواب سحر رہے۔ اردو کلچرل ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے صدر آرکیٹیکٹ عبدالرحمن سلیم نے صدارت فرمائی اور ڈاکٹر عابد معز نے تقریب کی نظامت کے فرائض انجام دئے۔
آرکیٹکٹ عمران سلیم جنرل سکریٹری اردو کلچرل ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے پاور پوائینٹ پریزنٹیشن سلائیڈس کے ذریعہ "ان کہی کہانی" کے زیر عنوان ڈاکٹر افسر شہاب کی زندگی کے کچھ گوشوں کو اجاگر کیا۔
مکرم نیاز اور محمود شاہد نے صاحبِ کتاب کے افسانوں کا مختصر تعارف و جائزہ پیش کیا۔
پروگرام میں مدیر اعلیٰ ہفت روزہ گواہ فاضل حسین پرویز، محترمہ زہرہ طلعت خان صاحبہ، آرکیٹکٹ احمد علی، محمد قیصر، غوث ارسلان، ضیاء الرحمٰن (بانی یاہند ڈاٹ کام)، سلیم فاروقی، محمد ناصر معین، محمد عثمان علی، آصف علی (روبی چینل)، مشہور عربی مترجم قاری صدیق حسین صاحب کے علاوہ کثیر تعداد میں خلیجی ممالک کے حالیہ و سابق این آر آئیز اور حیدرآباد کی نمائندہ ادبی شخصیات موجود تھیں۔
راقم الحروف مکرم نیاز کی تقریر کا خلاصہ ذیل میں پیش ہے:
میں ڈاکٹر عابد معز کا ممنون ہوں کہ انہوں نے صاحبِ کتاب کے چند شائع شدہ افسانے مجھے واٹس ایپ پر بھیجے، وقت کی کمی کے سبب میں صرف افسانچوں کا ہی مطالعہ کر سکا۔ انشاءاللہ پوری کتاب پڑھنے کے بعد کسی دن مفصل تبصرہ کی کوشش کروں گا۔ جن چند افسانچوں نے مجھے خاصا متاثر کیا، ان کے بارے میں مختصراً اظہارِ خیال کی اجازت چاہتا ہوں۔
ایک مختصر سا افسانہ ہے "بےبہرہ" جس میں ایک افسانہ نگار کے قلم کا نوحہ ہے کہ ۔۔۔ جیسے جیسے اس کے فن کے پرستاروں کی تعداد بڑھ رہی تھی اس کے پرستاروں کی عمر کا بھی کچھ یہی حال تھا۔
اور اس نوحہ کی مزید وضاحت افسانے کے اختتام پر ملتی ہے کہ دو نوجوان مبصرین میں سے ایک کا پیغام دیوناگری رسم الخط میں اور دوسرے کا رومن اردو میں تھا۔ فنکار کے فن کا کمال ہی یہی ہے کہ وہ معاشرہ کے المیے کی طرف اشارہ کرکے پڑھنے والے کو غور و فکر و عمل کے لیے آزاد چھوڑ دے۔
اسی طرح ایک دوسرا افسانچہ "محفلِ تعزیت" کے زیر عنوان نظر سے گزرا۔ اس میں بھی ہمارے ادبی معاشرے کی تنزلی کی نقاب کُشائی کی گئی ہے کہ زندوں کی قدر نہیں اور مُردوں کے ساتھ جڑ کر ہر کوئی اپنی شناخت کے اظہار پر تلا بیٹھا ہے۔ یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا کی حالیہ پوسٹس دیکھ لیں جہاں ہر بندہ اپنی کوئی پرانی تصویر لگا کر مرحوم امجد اسلام امجد کے ساتھ اپنی رفاقت کے اظہار پر اتاؤلا ہو رہا ہے۔ میں افسانہ نگار کو مبارک باد دیتا ہوں کہ ایک حساس موضوع کو جس زیریں سطح کے طنز کے ساتھ انہوں نے برتا ہے وہ حقیقتاً لائقِ تحسین ہے۔
"وقت اور فاصلہ" کے عنوان سے تحریر کردہ افسانچہ بھی نہ صرف دلگداز ہے بلکہ ہجرت کا کرب سہنے والے مہاجرین کی بےکسی کو اختتامی سَطروں میں سادہ الفاظ کے ذریعے یوں بیان کرتا ہے:
"وہ جب ائرپورٹ پہنچا تو اس کے استقبال کے لیے صرف اس کا خاندانی نوکر ایک عدد ہار لیے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے احساس ہوا کہ وقت اور فاصلہ رشتوں میں کمی پیدا کر دیتے ہیں اور لوگ پرانے شناساؤں کو بھول جاتے ہیں"۔
ڈاکٹر شہاب افسر خان کے درخشاں ادبی مستقبل کے لیے نیک تمنائیں پیش ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں