ضیاء محی الدین (پیدائش:20 جون 1931ء ، فیصل آباد - وفات:13 فروری 2023ء، کراچی)
ایک ایسے پاکستانی اداکار، پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور ٹی وی نشریاتی مقرر رہے ہیں جنہیں پاکستان کی پہلی فلم 'تیری یاد' کے مصنف اور مکالمہ نگار ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ ضیا محی الدین نے 1949ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے پہلے آتریلیا اور پھر انگلستان چلے گئے جہاں انہوں نے رائل اکیڈمی آف تھیٹر آرٹس سے وابستگی اختیار کی اور صداکاری اور اداکاری کا سلسلہ شروع کیا۔ 1956ء میں وہ پاکستان وپس لوٹے لیکن جلد ہی ایک اسکالر شپ پر انگلستان واپس چلے گئے جہاں انہوں نے ڈائرکشن کی تربیت حاصل کی ۔1960 میں میں جب ای ایم فوسٹر کے مشہور ناول اے پیسج ٹو انڈیا کو اسٹیج پر پیش کیا گیا تو ضیا محی الدین نے اس میں ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کرکے شائقین کی توجہ حاصل کرلی ۔ 1962ء میں انہیں فلم لارنس آف عربیا میں کام کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے اس فلم میں بھی ایک یادگار کردار ادا کیا۔ بعد ازاں انھہوں نے تھیٹر کے کئی ڈراموں اور ہالی وڈ کی کئی فلموں میں کردار ادا کیے۔ 1970ء میں ضیا محی الدین پاکستان آئے جہاں انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ضیا محی الدین شو کے نام سے ایک اسٹیج پروگرام کی میزبانی کی۔ اس اسٹیج پروگرام نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
آہل درانی ان کے انتقال پر اپنے تاثراتی مضمون میں لکھتے ہیں:
ضیاء محی الدین بھی دنیا چھوڑ گئے۔ وہ ایک ایسی آواز تھے جنھیں کروڑوں میں پہچانا جاسکتا تھا اور اردو لب و لہجہ پہ مکمل گرفت رکھنے والے آخری لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ کئی بار انھوں نے پی ٹی وی کے بڑے بڑے پراجیکٹس صرف اس وجہ سے چھوڑ دیے تھے کہ ہدایتکار سے اردو الفاظ کی ادائیگی پہ بحث ہوجاتی تھی اور ضیاء صاحب ڈٹ جایا کرتے تھے۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ضیاء محی الدین نے لندن کے Royal Academy of Dramatic Art سے تین سالہ اداکاری کی ٹریننگ مکمل تھی اور شروع میں وہیں اسٹیج شوز میں کام کرتے رہے۔ پھر انھیں Lawrence of Arabia میں بھی کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ دلیپ کمار بھی ساری زندگی پچھتاتے رہے کہ انھیں اس فلم میں کام کرنا چاہیے تھا پر اسکرپٹ ریجیکٹ کرکے غلطی کی۔ ضیاء صاحب نے پاکستان واپس آکر "دی ضیاء محی الدین شو" شروع کیا جس نے پاکستان ٹیلیوژن کی جہت بدل کر رکھ دی تھی۔ لیکن ضیاء کو پھر "ضیاء" کے ہی دباؤ پہ ملک چھوڑنا پڑا تھا کیوں کہ ضیاء الحق نے ٹی وی پہ سخت پابندیاں عائد کردی تھی۔ کچھ قریبی دوستوں کی مدد سے ضیاء محی الدین صاحب راتوں رات برطانیہ چلے گئے اور دس پندرہ سال وہاں کام کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ہی انھیں وہاں کی انڈیا اور پاکستان کی کمیونٹیز مشاعروں میں بھی مدعو کرتی رہی۔ لوگ انھیں سننا چاہتے تھے کیوں کہ اردو کی جو چاشنی اور مٹھاس ان کے لہجے میں تھی وہ دنیا سے ناپید ہوتی جارہی تھی۔ ایک ڈکٹیٹر کی وجہ سے انھیں ملک چھوڑنا پڑا تھا اور ایک ڈکٹیٹر کی وجہ سے ہی انھیں ملک واپس آکر عہدہ بھی سنبھالنا پڑا۔ پرویز مشرف انھیں کراچی میں واقع National Academy of Performing Arts کا سربراہ بنانا چاہتے تھے اور 2005 میں ضیاء صاحب نے یہ عہدہ سنبھال لیا اور آج تیرہ فروری 2023 تک وہ اسی عہدے پہ قائم رہے تھے پر اجل نے انھیں مزید موقع نہیں دیا۔
ضیاء محی الدین صاحب نہ صرف اردو بلکہ انگلش لٹریچر پہ بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔ برطانیہ کی ہائی سوسائٹی میں ان کے بارے میں نوے کی دہائی میں مشہور تھا کہ انگلش خطوط ضیاء صاحب سے اچھا کوئی پڑھ اور لکھ نہیں سکتا۔ انھوں نے مرثیہ نگاری کو ایک نئی پہچان دی تھی اور آواز کو بناوٹ سے پاک کرکے صرف اور صرف الفاظ کہ درست ادائیگی پہ دھیان دیا اور توقع کے برعکس لوگوں نے بہت سراہا کیوں کہ اس سے قبل بالخصوص پاکستان میں مرثیہ نگاری کرتے وقت آواز میں سوز لانا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ علامہ اقبال کے "شکوہ" کو اگر آپ ضیاء صاحب کی آواز میں سنیں تو حیران ہوجائیں گے۔ اقبال کو شاید ضیاء صاحب سے زیادہ اچھا کوئی نہیں پڑھ سکتا تھا ۔ ادب و آرٹ کی خدمت کرنے والے لوگ تیزی سے دنیا سے جارہے ہیں۔ پہلے امجد اسلام امجد اور اب ضیاء محی الدین صاحب۔ اللہ کامل مغفرت فرمائے آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں