© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
30/جنوری/2023ء
*****
کسی مسلمان پر کفر کا فتویٰ لگانا بہت سنگین بات ہے۔ اس تعلق سے صحیحین کی ایک حدیث بہت واضح ہے کہ ۔۔۔
"جس نے کسی آدمی کو کافر یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا، حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو اس کا کہا ہوا خود اس پر لوٹ آئے گا"۔
یہ اور اسی طرز کی دیگر احادیث بیان کرتے ہوئے قاضی شوکانیؒ کہتے ہیں کہ: ان احادیث کے ذریعے تکفیر میں جلدبازی کرنے کے بارے بہت بڑی ڈانٹ اور بہت بڑا وعظ و نصیحت ہے۔
اسی طرح امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں اپنی کتاب 'شرح نووی' میں فرماتے ہیں: مسلمان گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرنے سے کافر نہیں ہوتا، پس اسی طرح اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہنے سے بھی کافر نہ ہوگا جب تک کہ دین اسلام کے بطلان کا اعتقاد نہ کرے۔
دین کا ایک ادنیٰ سا طالب علم بھی اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ جانتا ہے کہ جب چند صحابہ کرام نے کچھ مسلمانوں کے اعمالِ کفریہ اور منافقت کو دیکھ کر انہیں قتل کرنے نبی (ﷺ) سے اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اجازت نہیں دی اور کفار کے طعنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ: نہیں! ورنہ کفار کہیں گے کہ دیکھو محمد (ﷺ) اپنے ہی ساتھیوں کا قتل کرتا ہے۔
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غیرمسلم اکثریت پر مبنی معاشروں کے ممتاز و معتبر علمائے کرام اسی لیے "مسئلہ تکفیرِ معین" کے معاملے میں بےانتہا احتیاط برتتے ہیں۔ اور پھر نبی کریم (ﷺ) کا ایک فرمان یہ بھی ہے کہ:
جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کو 'اے کافر' کہے تو یہ (گناہ کے اعتبار سے) اس کو قتل کرنے کی طرح ہے۔ (مجمع الزوائد : 7/389 ، حدیث: 13016)۔
کسی مسلمان کو (چاہے وہ کتنا بھی نام نہاد مسلم ہو) ٹھوس یقین سے ہندو یا غیرمسلم قرار دینا بھی، اس پر کفر کا فتویٰ لگانے کے مترادف ہے۔ اب عجیب قصہ تو یہ ہے کہ اتنی سب موٹی باتیں جاننے والی مذہبی شخصیات بھی نہ صرف ایسا فتویٰ دیتی ہیں بلکہ اپنے حلقۂ یاراں کو بھی ترغیب دلاتی ہیں کہ ان کے فیصلے پر مہرتصدیق ثبت کی جائے۔
کسی مسلم سلیبریٹی کا مندر میں پوجا کرنا یا گھر میں مورتی رکھنا یا مشرکانہ رسوم میں حصہ لینا ۔۔۔ بےشک گناہِ عظیم ہے۔۔۔ لیکن یہ ساری باتیں متذکرہ فرد کو "کافر" ڈیکلیر کرنے کی دلیل نہیں بنتیں۔ کفر کا فتویٰ اگر اتنا ہی آسان کام ہوتا کہ سوشل میڈیا پر چند تصاویر یا آڈیو/ویڈیو دیکھ کر صادر کر دیا جائے تو تین چوتھائی نہ سہی تقریباً آدھی امتِ مسلمہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتی!
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے ایک قول:
"کفر ایک شرعی حکم ہے اور یہ صرف شرعی ادلہ سے ثابت ہوتا ہے۔ (الکفر حکم شرعی و انما یثبت بالادلۃ الشرعیۃ)۔"
کی شرح میں فضیلۃ الشیخ مبشر احمد ربانی اپنی کتاب "مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط" کے تازہ ایڈیشن میں لکھتے ہیں:
شرعی طور پر کسی شخص کو کافر قرار دینے والے کے لیے علوم کتاب و سنت کا ماہر ہونا ضروری ہے جو شرعی احکام، اہداف، مقاصد اور اصول و ضوابط کا ادراک رکھتا ہو اور ان احکام اور اصول کی تطبیق، لوگوں کے احوال، ان کی اخطاء، تاویلات و جہالت اور قیامِ حجت کی رعایت رکھنے والا ہو۔ غالیوں کے غلو، انتہاپسندوں کی انتہا پسندی اور مفرطین کے افراط و تفریط سے کوسوں دور ہو۔ اس لیے کہ تکفیر کا مسئلہ انتہائی خطیر اور اس کے متابعات یعنی نتائج خطرناک ہیں۔
شیخ مبشر ربانی کی مذکورہ بالا تشریح میں ان اصطلاحات پر غور کیجیے:
"۔۔۔ لوگوں کے احوال، ان کی اخطاء، تاویلات و جہالت اور قیامِ حجت کی رعایت ۔۔۔"
اور اس بات پر بھی غور کیجیے کہ کیا سعودی عرب میں مذہبی حکومت نہیں ہے؟ کیا وہاں کے علماء کو شاہ رخ خان کی خطاؤں، تاویلات اور جہالت کا علم نہیں تھا جو انہوں نے یہ سب جاننے کے باوجود انہیں "ہندو" یا "غیرمسلم" قرار نہیں دیا اور بحیثیت مسلمان عمرہ کی اجازت دی۔
تکفیر معین و غیر معین کا مسئلہ اتنا حساس ہے کہ اسے نہ سوشل میڈیا پر ڈسکس کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی علماء یا علوم شریعہ کے ماہرین کو مطعون کیا جا سکتا ہے کہ وہ کیوں اس مسئلہ پر بیانات نہیں دیتے؟ اگر کوئی بیان کہیں نہیں ملتا تو یہ حق کیسے عام آدمی کو مل جائے گا کہ وہ تکفیر کی تلوار کو اپنے ہاتھ میں تھام کر سوشل میڈیا پر فتنہ پھیلانا شروع کر دے؟
اگر کوئی سچ مچ اس موضوع پر معلومات حاصل کرنے کا خواہشمند ہے تو ان چند اہم کتب سے استفادہ کیا جا سکتا ہے:
1) مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط (ابوالحسن مبشر احمد ربانی)
2) حرمتِ مسلم اور مسئلہ تکفیر (محمد یوسف ربانی)
3) عصر حاضر میں تکفیر، خروج، جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج (ڈاکٹر حافظ محمد زبیر)
اب آئیے ایک دوسرے مسئلے کے طرف۔
میں نے کئی جگہ کہا ہے کہ میں شاہ رخ خان کا شیدائی ہوں۔ شیدائی ہونا کن معنوں میں کہا جاتا ہے یہ اہل علم کو سمجھنا چاہیے۔ بیشتر سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہاں فنکار کے فن کی تحسین و ستائش مقصود ہے۔ اس سے یہ مراد قطعاً نہیں ہوتی کہ ممدوح کو آئیڈیل مانا جا رہا ہے یا اس کی شخصیت، اس کے اعمال و افعال، افکار و نظریات کو مثالی مان کر اس کی تقلید کی جا رہی ہے۔
ایسے تو ہم شراب پینے والے منٹو کے فن کے بھی شیدائی و قدرداں ہیں اور گواسکر، رونالڈو، سلوسٹر اسٹالون، محمد رفیع و لتا منگیشکر کے بھی ۔۔۔ اب کیا صرف اتنی سی بات پر کسی شیدائی کے کردار، مزاج، سوچ و فکر پر انگلی اٹھائی جائے گی؟
اسی طرح میری ٹائم لائن کے بعض قارئین کو شکایت ہوتی ہے کہ فلم یا فلمی فنکاروں کے موضوع پر میں کیوں لکھتا ہوں؟
اس کے جواب میں یوں تو بڑی آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ بھائی آپ کون ہوتے ہیں کسی قلمکار کے قلم کو بندش لگانے والے؟ مگر یہ تھوڑی تلخ نوائی ہو جائے گی۔ لہذا مودبانہ طور سے عرض خدمت ہے کہ۔۔۔
بھائی! میں سوشل میڈیا پر ناصح یا مبلغ یا ادیب، ناقد یا صحافی کا رول نبھانے حاضری نہیں لگاتا۔ میں نے اپنی ہی ایک پچھلی پوسٹ میں لکھا تھا اور اب پھر کہنا چاہتا ہوں کہ:
فیس بک کو بیشتر لوگ فیملی سمجھتے اور فیملی کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔۔۔ مگر جو کچھ لوگ ایسا نہیں سمجھتے، انہی میں میرا بھی شمار ہے۔ فیس بک یا سوشل میڈیا میرے نزدیک محض انفو لینے اور دینے یا پھر کچھ ٹائم پاس کی جگہ ہے۔
لہذا مختلف و متنوع موضوعات کے حساب و مزاج سے میری پوسٹس ہوتی ہیں۔ پھر میں اپنی کسی بھی پوسٹ پر کسی کو نہ ٹیگ کرتا ہوں اور نہ مینشن (استثنائی صورت ایک آدھ بار ممکن ہے)۔ لہذا میری ٹائم لائن کے ہر معزز قاری کی یہ ذاتی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود اپنی نیوز فیڈ کی دیکھ بھال کریں۔ اگر قاری محترم کو میری ٹائم لائن کی کوئی پوسٹ پسند نہیں یا ان کے معیار کے مطابق نہیں تو اسے اپنی نیوزفیڈ میں "ہائیڈ" کر دیا جانا چاہیے تاکہ اس پوسٹ کی کسی قسم کے نوٹیفیکیشن سے محفوظ رہا جا سکے۔
باقی اگر آپ کو لگتا ہے کہ مجھ ناچیز کی "اصلاح" آپ کا اولین فریضہ ہے تو ازراہ کرم اس کے لیے ان-بکس کا سہارا لیجیے، میری ٹائم لائن پر براہ راست مشورے دینے سے گریز فرمائیے۔
آخر میں ایک اہم اقتباس ۔۔۔
شیخ عبدالمعید مدنی اپنی کتاب "نقد کے دینی اصول: کردارکشی اور تکفیری فکر کے آئینہ میں" میں لکھتے ہیں۔۔۔
ناقد اگر نقد کرتا ہے تو اس کے سامنے یہ ہونا چاہیے کہ وہ دینی مفاد میں نقد کرے، اسے رضائے الٰہی مطلوب ہو۔ اس کے برعکس اگر ناقد۔۔۔ فرد، تنظیم اور مسالک کی تحریری یا تقریری تنقید غیراصولی طور پر کرتا ہے، اسے محض ذاتی حسد، بغض اور نفرت کا اظہار مقصود ہے تو یہ نقد نہیں نفس پرستی ہے اور جہاں نفس پرستی کی بنیاد پر کوئی عمل ہوتا ہے، اس سے اصلاح کی امید نقش برآب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ناقد کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر خیرخواہی کا جذبہ ہو، خیرخواہی کی بنا پر وہ نقد کرے۔ اگر اس کے نقد کی بنیاد بدخواہی ہو تو وہ نقد کرنے کا اہل نہیں۔ بدخواہی کی بنیاد پر نقد کرنے سے سارا کام الٹ کر رہ جائے گا۔ وہ قطعاً فرد و سماج کے لیے مفید ہو ہی نہیں سکتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں