سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ اور اردو رسم الخط کی ترویج - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2023/01/19

سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ اور اردو رسم الخط کی ترویج

give-space

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
19/جنوری/2023ء
*****


سوشل نیٹ ورکنگ کے کئی ذیلی اغراض و مقاصد ہو سکتے ہیں مگر بنیادی مقصد ایک ہی ہے یعنی خود اس اصطلاح کے معنی، جسے اردو میں کہیں گے:
باہمی سماجی روابط !
مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر اس بنیادی مقصد کو بھول جاتے ہیں یا نظرانداز کر جاتے ہیں یا اسے اہمیت دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ جس کے نتیجے میں ہماری ورچوئل لائف میں عدم تحمل، عدم برداشت اور عدم رواداری جیسے عناصر بڑھتے جا رہے ہیں۔


ابھی کل ہی کی بات ہے کہ انسٹاگرام پر مجھے ایک پیغام، سوالیہ شکل میں کچھ یوں ملا: "آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ کیا آپ سُنّی ہیں؟ کیونکہ آپ نے غیر سنیوں کو فالو کر رکھا ہے۔"
عموماً ایسے سوالات کو میں نظرانداز کر دیتا ہوں مگر جب سائل نے جواب کے لیے مسلسل تقاضا کیا تو میں نے لکھا کہ بہتر ہیکہ آپ پہلے اپنا کچھ تعارف کروائیں۔ جواب میں موصوف نے لکھا کہ وہ حیدرآباد میں گیارہویں جماعت کے طالب علم ہیں۔
اب بتائیے کہ اس بچے کی سوچ کی تربیت اور اس کی مناسب رہنمائی میں کہیں کمی تو نہیں رہ گئی؟ اس کے قصوروار کون ہیں؟ سوشل میڈیا کو اپنے قیمتی وقت کا ایک بڑا حصہ دینے والے ہم سب لوگ ہی کیا اس کوتاہی کا شکار نہیں ہیں؟
ظاہر ہے میں ایک اجنبی بچے کو نہ ڈانٹ سکتا تھا نہ طول طویل نصیحتیں کرتے بیٹھ سکتا تھا، لہذا مختصراً صرف اتنا لکھا کہ:
پیارے بیٹے۔ میرا بڑا بیٹا آپ کی عمر سے تقریباً پانچ سال بڑا ہے، لہذا آپ کو اپنے بیٹے ہی کی طرح میری نصیحت ہے کہ اپنی پڑھائی پر مکمل توجہ دیجیے اور ایسے غیرضروری سوالات کے پیچھے اپنا قیمتی وقت ضائع مت کیجیے اور پھر بڑوں سے ایسے سوال پوچھنا چھوٹوں کو زیب بھی نہیں دیتا۔


بےشک کوئی معقول اور تفصیلی جواب بچے کو دیا جا سکتا ہے مگر اس وقت جب دوبدو کی ملاقات ہو۔ خیر، ایسا ہی ایک دوسرا واقعہ کل فیس بک پر پیش آیا۔
اردو زبان یا یوں کہیں اردو رسم الخط کے تحفظ اور ترویج کی خاطر سوشل میڈیا پر اکثر و بیشتر مہم چلائی جاتی ہے جو یقیناً ایک اچھی اور قابل تحسین بات ہے اور اس کے مثبت اثرات بھی دیکھے گئے ہیں۔ مگر خراب بات یہ ہے کہ اس مہم کو چلانے کی خاطر دو مفروضے گھڑ لیے گئے ہیں:
1) اردو رسم الخط یا اردو زبان مر رہی ہے!
2) اردو زبان/رسمِ خط کو بچانے کے لیے ہر اردو داں کا سوشل میڈیا پر اردو رسم الخط کا استعمال لازمی ہے!


پہلے مفروضے کا جواب پچھلے دنوں ایک طویل مکالمے کی شکل میں ہمارے دوست صحافی شمس الرحمٰن علوی نے ایک ٹوئٹر تھریڈ پر مدلل طریقے سے دیا تھا:

Urdu is thriving but most media coverage about Urdu shows it as a dying language
https://twitter.com/indscribe/status/1601253646171136000

اور دوسرے مفروضے کا جواب یہ ہے کہ زبان یا خطِ زبان کی ترویج ایک الگ معاملہ ہے اور سوشل میڈیا کا اپنی مرضی کے مطابق استعمال ایک الگ چیز ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم نہیں ہیں!
اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈیا میں آج بھی ہر ریاست ہر شہر یا گاؤں میں سینکڑوں اردو اخبار و رسائل کاغذی شکل میں شائع ہوتے اور پڑھے جاتے ہیں۔ اور یہ اخبارات، رسائل و جرائد و کتب سوشل میڈیا کی کسی مہم کے محتاج نہیں ہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ڈیجیٹل مطالعہ کی بہ نسبت کاغذی مطالعہ کے رجحان میں کمی آئی ہے۔ مگر یہ معاملہ صرف اردو کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ تو ہر زبان کا مسئلہ ہے۔ انگریزی میں کتنے ہی اخبارات رسائل و جرائد گذشتہ چند دہائیوں کے دوران دم توڑ گئے، مثلاً ویک، السٹریٹیڈ ویکلی، اسکرین، بلٹز، امرت بازار پتریکا وغیرہ اور ایسی ہی صورتحال ہندی زبان کی بھی رہی ہے۔ اس کے باوجود آر۔این۔آئی کے تازہ اعداد و شمار (2020-21ء) کے بموجب، انگریزی، ہندی، مراٹھی، گجراتی، تلگو و تمل کے بعد اردو کے تقریباً 600 اخبار و رسائل انڈیا سے شائع ہوتے ہیں جو تعداد میں کنڑ، بنگالی، ملیالم، اڑیا، پنجابی سے آگے ہے۔


خیر یہاں کہنا یہ ہے کہ ۔۔۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر اردو رسمِ خط کے استعمال کی مہم میں مشغول و مصروف ہیں۔۔۔ بےشک ان کی سوچ اچھی، ان کے ارادے بہترین، ان کے عملی اقدامات بہت خوب ہوں گے ۔۔۔ مگر کیا ان کی نیت بھی اتنی ہی صاف ہے؟ کیونکہ اعمال کا سارا دارومدار تو نیتوں پر قائم رہتا ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ نظریاتی یا فکری یا شخصی مخالفین کے رد میں، رسم الخط کی مہم کو ایک ٹول کے بطور استعمال کیا جا رہا ہو؟
جب مذہب جیسے عظیم معاملے کی ترویج، تبلیغ و اشاعت کے ذیل میں کہا جاتا ہے کہ اس میں جبر نہیں تو زبان یا زبان کے خط کی ترویج میں متشدد مزاجی کا شکار ہم کیوں ہو گئے ہیں؟ جو اردو قلمکار سوشل میڈیا پر کسی مجبوری، کسی سبب یا اپنے کس نقطہ نظر کے باعث اردو رسم الخط کا استعمال کم کرتے یا نہیں کرتے ہیں، ان کے خلاف کردار کشی پر مبنی بےڈھنگی مہم چلانے پر ہم کیوں کمربستہ ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ ان کا نام، ان کی شہرت و مقبولیت "اردو" ہی کے سبب ہے۔ یعنی انہوں نے اپنی تخلیقات اردو اخبارات، کتب و رسائل کے ذریعے یپش کی ہوں گی تبھی تو ان کی "اردو شناخت" قائم ہوئی۔
پھر ہماری یہ زبردستی کیوں ہے کہ، رسم خط کی ترویج کی جو مہم ہم نے چلائی یا جو اصول ہم نے قائم کیے ہیں، اسی پر چل کر آپ "اردو والے" کہلا سکتے ہیں ورنہ بقول بش:
آپ اگر ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو آپ دہشت گرد ہیں!!؟؟


بس مودبانہ عرض یہی کی جا سکتی ہے کہ ۔۔۔ سوشل نیٹ ورکنگ کی ایتھکس کو سمجھیے، اس کو اپنی خواہشات کی تکمیل کا پیمانہ مت بنائیے۔ اردو کے بزرگ اساتذہ، نامور مصنفین و مدیران، کالج و جامعات کے لیکچرار و پروفیسر سوشل میڈیا پر جہاں زبان کی ترویج و ترقی میں حصہ لیتے ہیں وہیں "اردو تہذیب" کی بقا کی ذمہ داری نبھانے میں بھی انہیں اتنی ہی دلچسپی دکھانی چاہیے۔

Social media networking and the issue of promoting Urdu script.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں