© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
20/جنوری/2023ء
*****
مدرسہ محمود گاواں (بیدر، کرناٹک)
کہتے ہیں کہ عربی تعلیم و تدریس کے حوالے سے یہ اپنے دور میں ایشیا کی دوسری عظیم اسلامی اقامتی جامعہ رہی ہے۔
علاقہ دکن کی بہمنی سلطنت کے بادشاہ محمد شاہ بہمنی دوم (1463-1482) کے وزیر خواجہ محمود گیلانی (المعروف محمود گاواں) نے اپنی جیبِ خاص سے یہ تاریخی مدرسہ تعمیر کیا تھا جس کے آثار آج بھی موجود ہیں اور اسے "یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ" [World Heritage Site] میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس عمارت کے بالائی حصے کی باہری دیواروں پر رنگین ٹائلوں کے ذریعے قرآنی آیات نقش کی گئی ہیں۔
رحمٰن آذر اپنی کتاب "محمود گاواں کی واپسی" میں لکھتے ہیں ۔۔۔
دنیا کے تشنگانِ علم و ادب اس مدرسے سے فیضیاب ہوتے تھے۔ اس کے در و دیوار، نقش و نگار، اس کی ہر اینٹ سے علم و تقدس کی بو آتی تھی۔ تیس ہزار (30,000) کارآمد کتابوں کے علاوہ طلبہ و اساتذہ کے قیام کا بھی یہاں بندوبست تھا۔ دوسرے الفاظ میں یہ اپنے طرز کی واحد اقامتی درسگاہ تھی جس کے بلند مینارے زندگی کی تاریکی دور کرتے تھے۔ مشہور علماء نے اپنے خون سے اس کا چراغ جلایا تھا۔ خود محمود گاواں وہاں درس دیتے تھے۔ ان کا قائم کردہ یہ مدرسہ ہندوستان میں ایرانی فنِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔
گو دو سو سال تک یہ چراغ روشنی پھیلانے کے بعد آج خاموش ہے لیکن اس کی خاموشی سے بھی علمی شان اور جلال کا پتہ چلتا ہے۔ سفید، زرد اور نیلے رنگوں کی دلکش تحریریں کہہ رہی ہیں:
مٹ چکے ذہن سے سب یادِ گزشتہ کے نقوش
پھر بھی اک چیز ہے ایسی جو فراموش نہیں!
بیدر کے مقامی بزرگ ایک کہانی کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ۔۔۔ ایرانی فنِ تعمیر کا نمائندہ یہ مدرسہ جب بن کر تیار ہوا تو محمود گاواں نے اسے دیکھتے ہی خودفراموشی کے عالم میں بہ اندازِ تحسین و ستائش کہا:
ایں عمارت تاقیامت پائیدار !!
بس ۔۔۔ کچھ ہی دن بعد آسمانی بجلی گری اور دو میں سے ایک مینار شہید ہو گیا۔ اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی، مگر وہ بن نہ سکا اور آج بھی مینار کی وہ جگہ خالی ہے، جس کا عام مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
گذشتہ دو دہائیوں کے دوران دو بار بیدر کے آثار قدیمہ دیکھنے کا موقع ملا۔ اور پچھلے دنوں تیسری بار اس مدرسہ کے کھنڈرات سے گزر ہوا تو ہمیشہ کی طرح کچھ بےنام سے احساسات دل و دماغ پر رقم ہوتے گئے ۔۔۔
ادریس بابر نے یہ کتنا سچ کہا ہے:
یوں ہی دنیا سے گزر جاتے ہیں کیا کیا صاحب!!
The madrasa at Bidar is a distinguished example of Bahmani architecture (Persian style) built in AD 1472 by Khwaja Mahmud Gawan, the minister of Muhammad Shah III (AD 1463-82). It was functioned like a residential University and was maintained on the lines of Madrasa of Khurasan. It comprises a conventional quadrangular hall and chambers on all sides. This three storeyed building houses mosque, library, lecture halls, professors quarters and students cubicles. The library that existed on the other wing is now destroyed. On three sides there are semi-octogonal projections crowned by bulbous and on the fourth side is the main entrance flanked by two stately three-stage minars. The facade is adorned with multi-colored tiles in green, yellow and white in a variety of designs, arabesques and Quranic verses. Even though the building suffered much damaged due to explosion of gun powder in AD 1695, it still retains much of the original architecture features. It is the only one of its kind in India.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں