مسجد ٹھگی جیل - نمبولی اڈہ، کاچیگوڑہ، حیدرآباد - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2022/12/16

مسجد ٹھگی جیل - نمبولی اڈہ، کاچیگوڑہ، حیدرآباد

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
16/دسمبر/2022
*****


پیشِ خدمت ہے آج کی مسجد ۔۔۔ یعنی کہ بقول ہماری خاتونِ خانہ کے، "جمعہ سیریز" کی ایک اور مسجد۔
اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ حیدرآباد کی کسی مسجد کی تصویر ہماری ٹائم لائن پر لگے اور اس سے جڑی کسی یاد یا یادوں کا تذکرہ نہ ہو۔ آج دوپہر اتفاقاً اس علاقے سے گزرنا ہوا اور مسجد دیکھ کر یادوں کا پٹارہ ذہن میں کھل سا گیا۔

یہ 80ء کی دہائی کے اواخر کا ذکرِ خیر ہے۔ اس مسجد میں رمضان کے پہلے ہی دہے کی تراویح میں مکمل قرآن کی تکمیل عمل میں آتی تھی۔ ایک ہیں ہماری بڑی پھوپھو، جن کا نام میری پہلی کتاب (راستے خاموش ہیں، منتخب افسانوں کا مجموعہ) کے انتساب میں بھی شامل ہے، تو انہی کے رفیقِ حیات یعنی میرے بڑے پھوپھا اپنی نسل کے اعزہ اور دوسری نسل کے ہم جیسے لاپراہ لابالی نوجوانوں کو اسی مسجد کی تراویح میں شرکت کی خاطر بااہتمام ساتھ لے آتے تھے۔ اور یہیں سے ہم نوجوانوں کو "تراویح کے صبر و استقامت و استقلال" کا جو درس حاصل ہوا وہ آج تک برقرار ہے۔ بعد از تراویح، چادرگھاٹ کے پاس واقع مشہور نیاگرا ہوٹل پر کبھی چائے، کبھی لسی یا کبھی حلیم سے سب کی تواضع کی جاتی تھی۔
اور پھر ہوتا یہ تھا کہ ۔۔۔ بڑے پھوپھا کی ہدایت اور مشورہ پر، رمضان کے باقی دو دہوں کی تراویح ہمارے بنگلے کی چھت پر بڑوں، بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ ادا کی جاتی تھی۔ اس باجماعت تراویح کا طریقہ یہ تھا کہ بڑے پھوپھا سمیت تمام چاچا حضرات اور تمام نوجوان روزانہ ترتیب وار امامت کا فریضہ ادا کرنے کے ذمہ دار تھے۔ اور یوں ہم نوجوانوں کے تلفظ اور مخرج کی گرفت ہوتی اور اصلاح کی جاتی تھی۔ اب ہر کوئی تو حافظ نہ تھا، لہذا ہدایت تھی کہ آخری کی دس سورتیں، بیس رکعات تراویح میں سنائی جائیں۔
تو جن کو سورتیں نہ یاد تھیں وہ بھی یاد کرنے پر مجبور ہوئے۔ یونہی ایک بار اپنے حبیب لبیب #مرزا کے سامنے اس غریب نے بعد مغرب ڈینگ ہانک دی کہ ۔۔۔ "خود ہمارے گھر پر پڑھاتوں یارو میں بھی تراویح"۔
مرزا کا منہ کھل گیا تھا، بولے: تو کب سے حافظ بن گیا پاشا؟
شرما کر جواب دیا: ارے یارو، بس آخری دس سورتیں!
پھر مرزا کو جو موقع ملا، تو برسہا برس تک میرا تعارف اپنے دوستوں میں یوں کرواتے رہے:
"ان سے ملیے، میرے بچپن کے خاص دوست، دس سورتوں کے حافظ صاحب!"


اللہ غریقِ رحمت کرے پھوپھا مرحوم محمد عبدالعزیز حقانی کو، 1971ء میں سعودی عرب کو انہوں نے نقل مکانی کیا تھا، وہیں اکتوبر 1995ء میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں ریاض میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ بدقسمتی سے میں نمازِ جنازہ اور تدفین میں اس لیے شریک نہ ہو سکا کہ میں ان دنوں جدہ میں تھا۔ حالانکہ زندگی میں پہلی بار جب سعودی عرب کی سرزمین پر اگست 1995ء میں، میں نے قدم رکھا تو ائرپورٹ پر مجھے ریسیو کرنے بڑے پھوپھا ہی آئے تھے۔ وہ سعودی عرب کی انڈین کمیونیٹی کی مقبول عام اور معروف شخصیت تھے۔ ریاض میں شارع العلیا پر منسٹری آف فارن افئرز کی جو عمارت ہے، وہ مشہور آرکیٹکچرل فرم زھیر فائز آرکیٹکٹس کی جانب سے انہوں نے ہی ڈیزائن کیا تھا، جس پر انہیں سعودی حکومت کی طرف سے بہترین آرکیٹکٹ کا اعزاز بھی ملا تھا۔ ان کے فرزند یعنی میرے حقیقی پھوپھی زاد بھائی جواد عبدالعزیز حقانی بھی حیدرآباد کی جواں سال معروف حرکیاتی شخصیت ہیں اور ان دنوں ایک مشہور و مقبول تعلیمی ادارے کی ایڈوائزری کمیٹی کے موقر رکن بھی ہیں۔

Masjid Thaggi Jail at Nimboli Adda, kacheguda, Hyderabad.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں