تعمیرنیوز ویب پورٹل کی 10 ویں سالگرہ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2022/12/18

تعمیرنیوز ویب پورٹل کی 10 ویں سالگرہ

taemeernews web portal 10 years of continuous online publishing

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
18/دسمبر/2022
*****


پندرہ دسمبر آئی بھی اور خاموشی سے گزر بھی گئی، پتا ہی نہیں چلا۔ نہ کسی نے یاد دلایا، نہ مبارکباد دی۔
خیر ہم کون سا لوگوں کی داد و ستائش پانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ مگر پھر بھی ایک پوری دہائی کا اتار چڑھاؤ نظروں کے سامنے سے گزر گیا۔ ایک چیز اس عشرے میں ضرور سیکھی، جسے انگریزی میں ڈیڈیکیشن اور اردو میں لگن کہتے ہیں حالانکہ درست لفظ "جنون" ہونا چاہیے۔
دیکھا جائے تو سنجیدگی اور استقلال سے کوئی طویل کام فردِ واحد ہی کر سکتا ہے، بس یہ ہے کہ وہ فرد "جنونی" بھی ہو۔ یا پھر کوئی ایسا مستحکم ادارہ جہاں کے تین اہم شعبے فعال اور کارکرد ہوں: مالیہ، انتظامیہ اور کنٹنٹ بورڈ یا ادارتی نظم۔
بصورت دیگر دو چار ماہ یا دو چار سال سے زیادہ کوئی ویب سائٹ یا نیوز/ویب پورٹل چل نہیں پاتا۔ یہ ایک زمینی سچائی ہے!


ایسا تو ہرگز نہیں ہے کہ تعمیرنیوز کا سب کچھ کام بس مفت میں ہوتا رہا۔ ایک فرمانبردار مشرقی بیوی کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر کی مہارانی بھی ہوتی ہے اور نوکرانی بھی۔ یہی محاورہ تعمیرنیوز کے لیے مکرم نیاز پر بھی فٹ کیا جانا چاہیے۔ ڈومین تجدید سے لے کر، ویب/گرافکس ڈیزائن، ویب ڈیولوپنگ، ہیکنگ سے بچاؤ، سرور کے مسائل، ہر لحظہ بدلتے ویب معیار سے ارتباط، گوگل اردو ٹرینڈنگ پر نظر، کنٹنٹ رائیٹنگ، مواد کا انتخاب، معیار کی ترجیحات، اردو مقابلے، نوجوان قلمکاروں کی تحریروں کی تدوین، اشاعت اور ان کی حوصلہ افزائی، تحریر کے ساتھ موزوں تصویر کا انسلاک۔۔۔ بس یہ ایک طویل گورکھ دھندا رہا ہے۔۔۔ جبکہ ع
لوگ آسان سمجھتے ہیں ویب سائٹ چلانا


پھر کوئی روایتی خانگی جھگڑا ہو تو درمیان میں یہ جملہ بھی سننے کا حوصلہ رکھنا:
ہمارا حق مار دئے چندی پندی ویب سائٹ پر ہر ماہ رقم خرچ کر کے، وہ اِچ جمع کرتے رہتے تو آج جوبلی ہلز میں سو گز کی زمین سہی، اپنا ٹھکانہ تو ہوتی!!


تو بھائی میرے! دعویٰ ہمارا کسی زبان یا ادب یا صحافت کی خدمت کا نہیں۔ یہ کام پھول/شال/تصویر گینگ کو ہی سوٹ ہوتا ہے۔ ہم ذرا شریف لوگ ہیں ایسے چکروں میں پڑنے کا وقت ہی کہاں سے نکال پائیں گے بھلا۔
لیکن دکھ ان منفی کمنٹس یا تحریروں کا ضرور ہوتا ہے جن میں گلہ پھاڑ کر چلایا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔ ہندوستان میں اردو مر رہی ہے یا مرنے والی ہے یا جنازہ اٹھ رہا ہے۔۔۔
ارے جناب عالی ۔۔۔ کیا میں آپ کو اس قدر احمق نظر آ رہا ہوں کہ کسی مرتی ہوئی زبان کے لیے اپنا قیمتی وقت، محنت، پیسہ پسینہ اڑاتا بیٹھوں؟
صرف میں کیوں؟ ایک طویل فہرست ہے۔۔۔ ہندوستان سے شائع ہونے والے لاتعداد اردو اخبار و رسائل، منفرد و متنوع موضوعات پر اردو کتب کی اشاعت، سوشل میڈیا پر اردو رسم الخط میں مافی الضمیر ادا کرنے والوں کا جم غفیر، سینکڑوں اردو علمی ادبی ثقافتی واٹس ایپ اور ٹیلیگرام گروپس، فیس بک گروپس اور فیس بک پیجز، اردو املا و تلفظ سکھانے والے متعدد آڈیو ویڈیو چینلز، علمی ادبی ثقافتی صحافتی ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز کا ہجوم ۔۔۔ اور تو اور گوگل ایڈسنس انکم میں اردو زبان کی شمولیت۔۔۔ اور کیا چاہیے؟؟


خیر میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ساون کا موسم ہے اور سب کچھ ہرا ہی ہرا ہے، زردی کا تو کہیں نام و نشان نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ زبان و ادب کی صورتحال ہر دور میں کم و بیش نازک ہی رہی ہے، معاملہ چاہے کسی زبان کا ہو۔ مگر اس کے لیے بیوہ کا رونا رونے کے بجائے بہتری کا کام کیا جاتا ہے، خود نہ کر سکیں تو دوسرے کام کرنے والوں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ آپ یہ بھی نہیں کر سکتے تو ازراہ کرم خاموشی اختیار کیجیے۔ تنقید ہی کرنا ہے تو وہ کم از کم مبنی بر اصلاح تو ہو۔ کسی اشتہار، خبر، پوسٹر، اعلامیہ میں ذرا املا زبان و بیان کی غلطی یا خامی نظر آتے ہی:
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
جیسا نعرہ داغ کر زبان سے اپنی ہمدردی کی بھونڈی تشہیر کا طریقہ اپنانا خدارا اب بند بھی کیجیے۔


اجازت چاہتا ہوں ۔۔۔ اپنے پھوپھا مرحوم پروفیسر غیاث متین کے ان دو اشعار کے ساتھ:
کاغذ اچھال کر ذرا تیور ہوا کے دیکھ
کشتی کو پھر ہوا کے مخالف چلا کے دیکھ
منظر کی جستجو ہے تو باہر نکل کے آ
پھل چاہیے تو پیڑ ، ذرا سا ہِلا کے دیکھ


نیک خواہشات کے ساتھ۔۔۔

Celebrating TaemeerNews web portal's ten years of continuous online publishing.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں