© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
2/دسمبر/2022
*****
برائے تعلیمی سال 2022-23ء کے لیے ایم۔بی۔بی۔ایس اور بی۔ڈی۔ایس جیسے اہم و موقر کورسز میں داخلوں کا مرکزی/ریاستی اختتامی مرحلہ تقریباً تکمیل پر ہے بلکہ متعدد کالجوں میں تعلیم کا باقاعدہ آغاز بھی ہو چکا ہے۔ یہاں ریاست تلنگانہ (و آندھرا) کے مسلم اقلیتی کالجوں اور ان میں داخلہ حاصل کرنے کے مراحل کا ایک مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
واضح رہے کہ پانچ سالہ میڈیکل تعلیم میں داخلے کی بنیادی شرط، قومی سطح کے نیٹ [NEET] مسابقتی امتحان میں نمایاں نشانات سے کامیابی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے مختلف ریاستوں کے زیرانتظام میڈیکل کالجوں (سرکاری و غیرسرکاری) میں داخلے کے لیے درکار کم از کم نشانات مختلف ہو سکتے ہیں۔ مرکزی حکومت کے زیرانتظام سرکاری کالج (چاہے کسی بھی ہندوستانی ریاست میں واقع ہوں) کی نشستیں "آل انڈیا کوٹہ" کے تحت آتی ہیں جس میں داخلے کے لیے میرٹ بنیاد پر ہندوستانی طلبا کے علاوہ غیرمقیم ہندوستانی یا غیر ہندوستانی اور چند دیگر طبقے بھی اہل ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایسے سرکاری کالج جو ریاستی سرکار کے زیرانتظام ہوں، وہاں کی پندرہ فیصد نشستیں بھی "آل انڈیا کوٹہ" [AIQ] کے تحت محفوظ ہوتی ہیں۔ اور ان میں داخلے کی کونسلنگ قومی سطح کے ادارہ "میڈیکل کونسلنگ کمیٹی" [MCC] کے توسط سے انجام پاتی ہے۔
ہر ریاست کے سرکاری و غیرسرکاری میڈیکل کالجوں میں میرٹ بنیاد (نیٹ اسکور) پر داخلے کی ذمہ داری ریاست کی مختص میڈیکل یونیورسٹی نبھاتی ہے۔ ریاست تلنگانہ میں حسب سابق یہ ذمہ داری ورنگل کی کالوجی نرائن راؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس نے نبھائی ہے اور آندھرا پردیش میں این۔ٹی۔آر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس نے۔
یہاں اصل ذکر ہے مسلم طلبا و طالبات کے داخلوں کے لیے مختص مسلم اقلیتی میڈیکل کالجوں کا۔ حیدرآباد میں دارالسلام ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیرانتظام مسلم اقلیتی "دکن میڈیکل کالج" کا قیام 1984ء میں حیدرآباد کے رکن پارلیمان مرحوم سلطان صلاح الدین اویسی کے ہاتھوں عمل میں آیا تھا۔ ایم۔بی۔بی۔ایس میں داخلے کے لیے لاکھوں میں جب من مانی فیس وصول کی جانے لگی تب سپریم کورٹ کی مداخلت سے میڈیکل تعلیم کے حصول کو آسان کیا گیا۔ اور ہر پرائیویٹ میڈیکل کالج کی پچاس فیصد نشستیں گورنمنٹ کوٹہ کے تحت محفوظ کی گئیں اور فیس بھی کم سے کم مقرر کی گئی۔ باقی پچاس فیصد نشستوں کو "منیجمنٹ کوٹہ" کا نام دے کر اس میں داخلے کی ذمہ داری متعلقہ کالج کی انتظامیہ کے سپرد کی گئی۔ ان دنوں گورنمنٹ کوٹہ نشست کی سالانہ فیس ساٹھ ہزار اور منیجمنٹ کوٹہ نشست کی سالانہ فیس 12 لاکھ سے 15 لاکھ روپے کے درمیان ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ تک من مانی فیس کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی خاطر مرحوم ڈاکٹر وزارت رسول خان کی خاص مساعی رہی اور اسی کے بعد سے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں نشستوں کی تقسیم کا قانون عمل میں آیا۔ اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر وزارت رسول خان کی ایم۔آئی۔ایم سے علیحدگی کی شکل میں نکلا۔ اور پھر انہوں نے اس کے ردعمل میں ریاست بھر میں انجینئرنگ، میڈیکل، فارمیسی، منیجمنٹ جیسے متعدد تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا۔
اس کا یہ مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے کہ ایم۔آئی۔ایم نے عوام کا خون چوسا ہے ۔۔ ایسا قطعاً نہیں ہے بلکہ درست بات یہ ہے کہ سابقہ متحدہ آندھرا پردیش اور بالخصوص حیدرآباد میں مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال پر سنجیدگی سے توجہ اور ٹھوس عمل آوری میں ایم۔آئی۔ایم ہی کا اولین اور بڑا ہاتھ ہے۔ کوئی فرد/ادارہ اندھی مخالفت کی ضد میں آ کر اس روشن حقیقت کا رد کرنا چاہے تو وہ اس کا اپنا ذاتی مسئلہ ہے، جس سے سنجیدہ، باشعور اور تعلیم یافتہ حیدرآباد عوام بری ہیں۔ خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے، جس پر کسی اور وقت گفتگو سہی۔
فی الحال حیدرآباد میں اس وقت چار مسلم اقلیتی میڈیکل کالج ہیں (جن میں سے آخری تین ڈاکٹر وزارت رسول خان کی طرف سے قائم کیے گئے ہیں):
1) دکن کالج آف میڈیکل سائنسز
2) شاداں انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز
3) ڈاکٹر وی۔آر۔کے وومن میڈیکل کالج
4) ایان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز
رواں سال ان چاروں میڈیکل کالجوں میں گورنمنٹ کوٹہ کے تحت، مسلم طلبا و طالبات کے لیے تقریباً 275 نشستیں دستیاب رہیں۔ جبکہ ریاست تلنگانہ میں غیر اقلیتی پرائیویٹ کالجوں کی تعداد قریباً 18 ہے اور ان میں تقریباً ڈھائی ہزار ایم۔بی۔بی۔ایس نشستیں دستیاب ہیں۔
اگر غیرجانبدارانہ اور خالص تعلیمی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بہترین تعلیم اور انفرا اسٹرکچر کی فراہمی کے معاملے میں غیراقلیتی ادارے جیسے اپولو، کامنینی، بھاسکر، ملاریڈی وغیرہ بہت آگے ہیں۔ اور اس فہرست میں سب سے آخر میں چاروں مسلم اقلیتی میڈیکل کالج آتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ایک جذباتی مسئلہ یہ ہے کہ مسلم طلبا اور ان کے والدین/سرپرست کی اکثریت مسلم اقلیتی کالج میں ہی داخلے کو ترجیح دیتی ہے چاہے طالب علم کا نیٹ رینک کتنا ہی بہترین کیوں نہ آئے۔ اس سے نقصان اس بچارے طالب علم کا ہوتا ہے جسے سال، دو سال یا تین سال کی سخت محنت کے باوجود کم نشانات حاصل ہوئے ہوں اور وہ 'مسلم مائناریٹی' بنیاد پر کسی مسلم اقلیتی کالج میں اپنے داخلے کے حق سے استفادہ کا خواہاں ہو۔ (کیونکہ مسلم اقلیتی کالج میں صرف مسلمان امیدوار کو ہی داخلے کا حق حاصل ہے، سوائے چند فیصد استثنیٰ کے۔)
والدین/سرپرستوں سے میڈیکل کونسلنگ کے ماہرین نے متعدد بار درخواست کی ہے کہ اگر آپ کی اولاد کا رینک اچھا ہے تو ازراہ کرم اسے سرکاری میڈیکل کالج یا دیگر غیراقلیتی میڈیکل کالج میں داخلہ دلانے کو ترجیح دیجیے۔ ایسے مسلم طلبا کے حق پر ڈاکہ مت ڈالیں جو کم نشانات کے باوجود میرٹ بنیاد پر مسلم کالج میں داخلے کے مستحق قرار پاتے ہوں۔ یعنی اچھے رینک والے مسلم امیدوار کو جب کسی بھی سرکاری یا غیراقلیتی پرائیویٹ میڈیکل کالج میں بآسانی داخلہ مل سکتا ہے تو اسے مسلم کالج کی نشست پر قبضہ نہیں جتانا چاہیے۔
اس دفعہ آندھرا حکومت کے تعصب کو دیکھ اور برت کر تعجب اور افسوس ہوا۔ آندھرا میں نمرہ میڈیکل کالج بھی ایک حیدرآبادی یعنی ڈاکٹر وزارت رسول خان کا قائم کردہ ہے۔ نمرہ کی کم از کم چار نشستیں غیرریاستی مسلم امیدواروں کے لیے مختص ہوتی ہیں مگر اس بار اس نے تلنگانہ کے کسی بھی مسلم امیدوار کو داخلہ نہیں دیا ہے جبکہ حیدرآباد کے چاروں مسلم میڈیکل کالجوں میں آندھرا کے کئی امیدواروں کو ان کے کوٹے سے مکمل استفادہ کا حق دیا گیا۔
بہرحال ۔۔۔ مجھے دوسری ریاستوں کا زیادہ علم نہیں ۔۔۔ مگر حیدرآباد میں میڈیکل تعلیم کی جو صورتحال ہے، اس کی ایک مختصر عکاسی اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کے ناتے یہاں پیش کی ہے۔ دو سال قبل میرے برادر خورد کی دختر کو، پچھلے سال میرے ماموں زاد بھائی کی دختر کو اور رواں سال خود میری دختر کو متذکرہ مسلم میڈیکل کالجوں کی گورنمنٹ سیٹ پر داخلہ ملا ہے۔ ان تمام والدین اور سرپرستوں کو بھی مبارک جن کی اولاد نے کسی بھی سرکاری یا پرائیویٹ میڈیکل کالج (گورنمنٹ سیٹ/اے کٹیگری) میں نشست حاصل کی ہے۔
سابق رکن پارلیمان حیدرآباد مرحوم سلطان صلاح الدین اویسی، سابق رکن اسمبلی مرحوم ڈاکٹر وزارت رسول خان کو ہم اولیائے طلبا خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اپنی ریاست تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ عالیجناب کے۔سی۔آر کے بھی ہم ممنون ہیں کہ ان کی قیادت میں مسلم طبقہ دیگر ہندوستانی ریاستوں کی بہ نسبت متعدد سہولیات سے استفادہ کر رہا ہے۔
جئے بنگارو تلنگانہ !!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں