کندیکل گیٹ فلائی اوور، گورنمنٹ سٹی کالج، مسلم جنگ پل اور کمارم بھیم - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2022/11/05

کندیکل گیٹ فلائی اوور، گورنمنٹ سٹی کالج، مسلم جنگ پل اور کمارم بھیم

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
5/نومبر/2022
*****


حیدرآباد میں ٹریفک کے مسائل اس قدر سنگین ہیں کہ ہر دو چار ماہ بعد گھر/دفتر آمد و رفت کا راستہ بدل دینا پڑتا ہے۔ مگر میرے دوست #مرزا کو میرے موقف سے اتفاق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تو ہر شہر کا مسئلہ ہے، اصل بات یہ ہے کہ تم جلد یکسانیت سے بور ہو جاتے ہو۔ جواب میں جب انہیں اپنی اکلوتی شادی کی تصاویر بتاتا ہوں تو میری ٹھوس دلیل کو رد کرکے استہزائیہ انداز میں فرماتے ہیں: یہ نہیں بدل سکتے ناں پاشا، تو اسی کا بدلہ دوسرے طریقوں سے نکالتے ہو!


خیر مذاق برطرف۔ سچ بات یہ ہے کہ ہر دو چار ماہ میں روٹ بدلتے رہنے کے سبب گذشتہ چھ برسوں میں کم از کم درجن بھر ایسے راستے یہ غریب دریافت کر چکا ہے جو چندرائن گٹہ تا مانصاب ٹینک (فاصلہ: تقریباً 14 کلومیٹر) کو جوڑتے ہیں۔ ان میں مشہور چار ہیں:
1) براہ اویسی اسپتال - سنتوش نگر - سعیدآباد - ملک پیٹ - چادرگھاٹ پل - کوٹھی - بشیر باغ - اسمبلی - لکڑی کا پل - مانصاب ٹینک
2) براہ اویسی اسپتال - سنتوش نگر - سعیدآباد - دبیرپورہ - چھتہ بازار - نیا پل - معظم جاہی مارکٹ - نامپلی - اسمبلی - لکڑی کا پل - مانصاب ٹینک
3) براہ رکشاپورم - معین باغ - عیدی بازار - تالاب کٹہ - کوٹلہ عالیجاہ - اعتبار چوک - چھتہ بازار - نیا پل - معظم جاہی مارکٹ - نامپلی - اسمبلی - لکڑی کا پل - مانصاب ٹینک
4) براہ چندرائن گٹہ چوراہا - فلک نما - شاہ علی بنڈہ - اللہ مسجد چوراہا - خلوت - چوک - حسینی علم - موسیٰ باؤلی - ہائیکورٹ روڈ چوراہا - مسلم جنگ پل - مالاکنٹہ - بیگم بازار - گوشہ محل (دارالسلام) - آغاپورہ - بازار گھاٹ چوراہا - اے۔سی۔گارڈز - مانصاب ٹینک


دو مزید مشہور راستے ہیں۔ ایک تو کافی طویل یعنی چندرائن گٹہ سے آرام گھر، عطاپور، مہدی پٹنم تا مانصاب ٹینک۔
دوسرا ، اوپر مذکورہ چوتھے راستے کے عین مماثل ہے بس چندرائن گٹہ چوراہا اور فلک نما کے بجائے ۔۔۔ کندیکل گیٹ فلائی اوور، گاؤلی پورہ، لال دروازہ اور پھر اللہ مسجد چوراہے سے عین وہی چوتھا راستہ۔


کندیکل گیٹ فلائی اوور والے راستے کا استعمال اس لیے زیادہ نہ ہو سکا کہ چندرائن گٹہ فلائی اوور کے ایکسٹنشن کے سبب یہ راستہ تقریباً بند ہو چکا تھا، البتہ ماہ اگست (2022ء) کے اواخر میں اس توسیع شدہ فلائی اوور کی تکمیل اور افتتاح کے بعد کندیکل گیٹ فلائی اوور کے استعمال کا موقع ملا۔ اور آج کل مرکزی سڑکوں کی ٹریفک سے بچنے یہی پانچواں راستہ زیر استعمال ہے۔

kandikal-gate-flyover

کندیکل گیٹ فلائی اوور کا اصل نام "بابا صاحب امبیڈکر فلائی اوور برج" ہے جس کا سنگِ بنیاد، چندرائن گٹہ حلقے کے رکنِ اسمبلی حبیبِ ملت (المعروف چھوٹی شیروانی) جناب اکبر الدین اویسی نے 27/اگست 2011ء کو رکھا تھا اور جو 23 کروڑ روپے کی مالیت سے دسمبر 2014ء میں مکمل ہوا اور عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ درج بالا تصویر اسی فلائی اوور کی ہے جو راقم نے آج اسی راستے سے دفتر آتے ہوئے لی ہے۔


دوسری تصویر گذشتہ حیدرآباد کی اسی معروف و مقبول تعلیمی درسگاہ گورنمنٹ سٹی کالج کی سرخ عمارت کی ہے جہاں کبھی دکن کے مشہور شاعر مخدوم محی الدین نے بحیثیت استاذ علم بانٹا تھا اور جہاں کے طالب علم ساری دنیا میں آج بھی پھیلے ہوئے ہیں (جن میں سے ایک میرے والد مرحوم رؤف خلش بھی رہے ہیں)۔


پرانا شہر اور نئے شہر کے درمیان سے موسیٰ ندی کا بہاؤ ہے جس پر چار عدد پل نظام حیدرآباد کے زمانے میں تعمیر کیے گئے تھے، چادرگھاٹ پل، نیا پل، مسلم جنگ پل اور پرانا پل۔ کہا جاتا ہے کہ موسیٰ ندی کی مشہور طغیانی کے وقت "نیا پل" بھی بہہ گیا تھا جسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ دو یا تین دہائی قبل اس پل پر سے گزرنے والی ٹریفک کو یکطرفہ کیا گیا اور اس کے متوازی ایک اور پل تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کا نام شاید اب تک کسی کو معلوم نہیں، سو مجھے بھی نہیں معلوم۔ البتہ ہمارے شہر کے ایک سینئر شاعر محترم سردار سلیم نے کچھ برس قبل اپنے ایک فکاہیہ کالم میں اس پل کو "ڈبل شری" کے خطاب کے طرز پر "ڈبل نیا" پل کہہ دیا تھا۔

muslim-jung-pul

تیسری تصویر، پرانا پل اور نیا پل کے درمیان تعمیرشدہ "مسلم جنگ پل" کی ہے جہاں ٹھہر کر، نظامِ حیدرآباد کے زمانے کی تعمیرشدہ پرشکوہ عمارتوں ہائیکورٹ حیدرآباد اور عثمانیہ اسپتال کا نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی پل پر راقم الحروف برسوں سے کبوتروں کا جھنڈ دیکھ رہا ہے۔۔۔ بلکہ گمان اغلب ہے کہ مجھ سے پہلے والی نسل نے بھی دیکھا ہوگا۔

kumaram-bheem

آخری تصویر اسی پل کے اختتام پر ایک مجسمہ کی ہے۔ اندازہ کیا کہ شاید شہید بھگت سنگھ کا مجسمہ ہوگا۔ اور شاید چند برس قبل ہی نصب کیا گیا ہے۔ وہاں متعین ٹریفک کانسٹبل سے پوچھا کہ کس کا ہے تو موصوف نے گھور کر دیکھا اور بولے: "جاؤ میاں، اپنا راستہ ناپو، یہاں آدمیوں کو سدھارنے فرصت نئیں اور تم کو اسٹیچو کی پڑی ہے!"
جس پتھر پر مجسمہ نصب ہے، اس پر کوئی نام درج نہیں۔ بہرحال دفتر آکر دوبارہ غور کیا تو اچانک یاد آیا کہ یہ تو کمارم بھیم ہیں یعنی آدی واسی گونڈہ قبیلے کے رہنما کمارم بھیم جو انگریزوں اور سابق ریاست حیدرآباد دکن کی نظام حکومت کے خلاف تھے اور علیحدہ ریاست تلنگانہ کے حامی بھی اور جن کا نعرہ تھا: جل جنگل زمین۔ اور جن کا کردار حالیہ مشہور فلم "آر آر آر" میں جونئر این ٹی آر نے نبھایا ہے۔


پس نوشت:
پیارے قاری! یہ غریب، حیدرآباد کا کوئی طرم خان صحافی یا سند یافتہ مورخ نہیں ہے۔ مشہور کارٹونسٹ آر۔کے۔لکشمن کے کارٹون میں ایک "common-man" ہوا کرتا تھا ۔۔۔ خاکسار کو بھی بس وہی "عام آدمی" سمجھیے ۔۔ جو اپنے آبائی شہر کی بدلتی تہذیب اور بدلتے مزاج کو روز حیرت زدہ نظروں سے دیکھتا گزرتا رہتا ہے۔ ہمارے دور (بیسویں صدی کی آٹھویں/نویں دہائی) کے شہر کے اردو اخبارات میں اسی طرز کے معلوماتی کالم سینکڑوں قلمکار لکھا کرتے تھے۔۔۔ جس کی پاسداری کا بوجھ آج کل سوشل میڈیا پر ہم نے اٹھایا ہے، اس امید کے ساتھ کل ہم نہ رہیں تو کوئی دوسرا مکرم نیاز بھی پیدا ہو۔

Kandikal Gate flyover, Government City College, Muslim Jung Pul and Kumaram Bheem, Hyderabad.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں