© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
23/مئی/2022
*****
دوستو!
آپ سب کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کے باعث احقر کی پہلی کتاب "راستے خاموش ہیں" (منتخب افسانوں کا مجموعہ) کی رسم اجرا تقریب اتوار 22/مئی 2022ء کی شام میڈیا پلس آڈیٹوریم (عابڈز، حیدرآباد) پر خیر و خوبی سے انجام پائی۔ تقریب کی مختلف رپورٹیں اور تصاویر آج کل میں اخبارات یا پھر میری اسی ٹائم لائن یا ویب سائٹ یا بلاگ پر شائع ہو ہی جائیں گی۔ تھوڑا انتظار کر لیجیے۔
فی الحال یہ عرض کرنا تھا کہ کتاب کے تمام نسخے طبع ہو کر آ چکے ہیں اور کل منگل سے معزز خریداروں کو کتاب پوسٹ کر دی جائے گی۔ کتاب کی قیمت حسب وعدہ 31/مئی تک 250 روپے مقرر ہے اور کتاب صرف انڈیا میں ہی رجسٹرڈ بک پوسٹ سے بھیجی جائے گی۔
وقت کی شدید قلت اور دیگر گوناگوں مصروفیات کے سبب متعدد عزیز دوستوں اور اقربا کو تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ دینے سے قاصر رہا ہوں۔ پھر یوں بھی ہوا کہ جن احباب سے شرکت کی قوی توقع تھی وہ غیرحاضر رہے اور جن کا گمان نہ تھا انہوں نے اپنی حاضری درج کرائی۔ خیر زندگی میں ایسا سب کچھ تو چلتا ہی رہتا ہے۔
مجھے خوشی اور فخر ہے کہ باقاعدہ شخصی درخواست یا دعوت نامہ نہ دئے جانے کے باوجود میری پھوپھو (اہلیہ پروفیسر غیاث متین مرحوم) نے اپنی ضعیف العمری اور کمزوری کو پسِ پشت ڈال کر تقریب میں شرکت کی اور میری حوصلہ افزائی کا فریضہ نبھایا۔ اسی طرح وہ چند دوست اور عزیز کہ جن کے بغیر اس تقریب کا خوش اسلوبی سے تکمیل تک پہنچنا ممکن نہ تھا ان میں شامل ہیں: برادرانِ عزیز سہیل عظیم اور عظیم قریشی، ڈاکٹر فاضل حسین پرویز، ڈاکٹر ابومظہر خالد صدیقی، احمد ارشد حسین، فرحان عزیز اور محسن خان۔
اسی طرح تمام حاضرینِ محفل کا بھی میں فرداً فرداً شکرگزار ہوں۔
صدرِ محفل پروفیسر رحمت یوسف زئی، مہمان خصوصی محترمہ قمر جمالی، مہمانان اعزازی محمود شاہد (کڈپہ) اور عظیم قریشی (ورنگل) اور میری دخترِ نیک اختر ملاحت مکرم کی تقریر کا مکمل متن بھی ایک آدھ دن میں شئر کروں گا۔
فی الحال میری تقریر کا متن ذیل میں ملاحظہ کیجیے۔
*****
راستے خاموش ہیں!
لیکن آواز نہیں، آواز تو جاگ رہی ہے، گونج رہی ہے۔ آواز ۔۔۔ جو زندگی کی علامت ہے۔ اور انسان جو اس علامت کا اظہار ہے۔
یہاں آپ سب کی موجودگی ثابت کرتی ہے کہ ابھی زندگی خاموش نہیں ہوئی ہے۔ یہ سانسیں لے رہی ہے، جی رہی ہے، دوڑ رہی ہے، بھاگ رہی ہے۔
اس دوڑتی بھاگتی مصروف زندگی سے چند لمحے چرا کر آپ سب نے جو اس تقریب کے نام کیے ہیں اس کے لیے میں آپ تمام کا تہ دل سے ممنون ہوں مشکور ہوں۔
صدر محترم پروفیسر رحمت یوسف زئی، مہمان خصوصی محترمہ قمر جمالی اور مہمانانِ اعزازی جناب محمود شاہد، جناب عابد صدیقی، ڈاکٹر فاضل حسین پرویز، پروفیسر مصطفیٰ علی سروری، جناب عظیم قریشی، جناب احمد ارشد حسین، جناب فرحان عزیز، جناب محسن خاں، ڈاکٹر ابومظہر خالد صدیقی اور برادرم سہیل عظیم کے ساتھ ساتھ میں آپ تمام حاضرین کا دل سے شکرگزار ہوں کہ آپ نے وقت نکالا، عزت دی اور حوصلہ بڑھایا۔
بہت بہت شکریہ۔
علامہ اعجاز فرخ، پروفیسر فضل اللہ مکرم، پروفیسر مظفر شہ میری، ڈاکٹر مصطفی کمال، ڈاکٹر مجید بیدار، ڈاکٹر اسلم فاروقی اور جناب اعجاز عبید کے علاوہ چند مزید دوست کسی نہ کسی باعث شرکت سے قاصر رہے ہیں ۔۔۔ ان سب کی کمی کو محسوس کرنے کے باوجود میں ان کا بھی شکرگزار ہوں۔
میری بیٹی اور اس ہی کی طرح آج کی نسل اکثر ایک سوال اٹھاتی ہے: صرف اردو زبان ہی کیوں ضروری ہے؟ اس کا کچھ جواب اگر میری بیٹی نے دیا ہے تو کچھ جواب میرے پاس بھی ہیں۔
لیکن ٹھہریے۔۔۔ میں کچھ سال پیچھے پلٹ جاتا ہوں۔
زمانۂ طالب علمی کے دوران میں نے اپنے والد مرحوم رؤف خلش سے کبھی پوچھا تھا:
میری اپنی نظر میں اردو ادب کو آج کل ایک مشکل شکل میں پیش کیا جا رہا ہے ، اس لئے ہماری نئی نسل کو اردو زبان سے دلچسپی نہیں۔ اگر اردو ادب کو کچھ آسان فہم بنا دیا جائے اور جدید علامتی یا اشاراتی زبان میں پیش کرنے سے گریز کیا جائے تو شاید یہ زبان یا یہ ادب آج کی نئی نسل میں کچھ مقبول ہو سکے۔
والد صاحب نے جواب میں سب سے پہلے یہی کہا تھا کہ تم نے زبان و ادب کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔
اور میں یہی بات آج دہرانا چاہتا ہوں کہ بات صرف زبان کی نہیں ہے بات تو لٹریچر کی بھی ہے یعنی شعر و ادب۔ اور دنیا کی ہر بڑی زبان میں ادب کا خزانہ ہوتا ہے ۔۔۔ ادب، جو انسان کو بہتر زندگی کی راہ بتاتا ہے، سجھاتا ہے، اس کی رہنمائی کرتا ہے۔
جب زبان ہی نہیں رہے گی تو ادب کہاں سے پیدا ہوگا اور اگر ادب نہیں ہوگا تو پھر ہم پتھر کے یا جنگل کے دور میں لوٹ جائیں گے۔
لہذا یہ بات خود ہمارے سمجھنے کی ہے کہ زبان اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ہماری نسل کو اردو سے دلچسپی نہیں ، یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔ اس کا کسی بھی زبان کے ادب کی مشکل پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ ہم کو ادیبوں شاعروں سے یہ مطالبہ نہیں کرنا چاہئے کہ بھئی! آسان زبان میں ادب تخلیق کرو۔ ادب کے ہزارہا پہلو ہوتے ہیں۔ کئی ایسے ادیب و شاعر بھی ہوتے ہیں جو آسان زبان میں ادب تخلیق کرتے ہیں۔ کئی ایسے ہوتے ہیں جو مشکل پسند ہوتے ہیں۔ اس عمل سے زبان کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا بلکہ زبان ہر اعتبار سے مالا مال ہوتی جاتی ہے۔ عوامی زبان کی شاعری کے حوالے سے اردو میں اگر نظیراکبرآبادی کا نام ہے تو اردو میں ہی غالب جیسا شاعر پیدا ہوا، جو مشکل پسندی میں ثانی نہیں رکھتا تھا۔
کوئی ضروری نہیں کہ ہر عام آدمی ادب میں دلچسپی لے۔ یہ صفَت تو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ ہاں ادب سے لطف اندوز ہونے کے لئے ایک شرط ہے : وہ ہے بات کا سمجھ میں آ جانا۔ اور اس کے لیے ایک معیار بنانا پڑتا ہے۔ اور معیار بنانے کے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ ایک ادب ذوق قاری کچھ عرصہ کے مطالعہ کے بعد اس معیار تک یا اس کے آس پاس پہنچ ہی جاتا ہے۔
بشرطیکہ آپ پڑھنے کے لیے وقت نکالیں ۔۔۔ اور پھر آج پڑھنے کے لیے کتاب کے علاوہ بھی کئی دیگر ذرائع موجود ہیں، کمپیوٹر ہے۔ لیپ ٹاب ہے، موبائل ہے، ٹیب ہے انٹرنیٹ ہے۔
بس تھوڑا سا وقت نکالنا ہمارا آپ کا کام ہے۔
مجھے کسی نے پوچھا کہ یہ جو آپ، کئی سال پہلے کے لکھے گئے اپنے افسانے پڑھوانا چاہتے ہیں، اس سے ہوگا کیا؟ کیا دنیا بدل جائے گی یا آدمی سدھر جائے گا؟
نہیں۔ میرا تو ایسا کوئی دعویٰ نہیں کہ ادب کے پڑھنے سے آدمی کی زندگی تبدیل ہو جاتی ہے یا سدھر جاتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوگا کہ۔۔۔ ادب کے ذریعے، آدمی کی سوچ کا دائرہ تھوڑا وسیع ہو جائے گا۔ وہ انسانی نفسیات کو سمجھ کر اپنے برتاؤ، اپنے ظرف، اپنے رویوں، اپنی بول چال، اپنی فکر و نظر میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور لے آتا ہے۔
ذرا سوچیے کہ ۔۔۔ اس سے اچھی بات اور کیا ہوگی کہ کوئی آپ کو سن کر، آپ کو دیکھ کر ، برت کر، سمجھ کر ۔۔۔ آپ کے منہ پر کہے کہ :
ماشاءاللہ آپ تو پڑھے لکھے لگتے ہیں!!
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ راستے ہر چند خاموش ہیں۔ مگر آدمی خاموش نہیں، وہ بول رہا ہے، سوچ رہا ہے سمجھ رہا ہے۔ یہی زندگی کی، زندہ دِلی کی علامت ہے۔ اور زندگی یونہی رواں دواں ہو تو آدمی کے بہتر زندگی گزارنے کی امنگ بھی ہر پل زندہ رہے گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں