بنگلہ ادب سے دو کتابیں : ستیہ جِت رے اور بن پھول - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2022/02/24

بنگلہ ادب سے دو کتابیں : ستیہ جِت رے اور بن پھول

satyajit-ray-ban-phool

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
24/فروری/2022
*****

اسی ہفتے موصول ہوئیں بنگلہ ادب کے اردو ترجمہ کی دو مفید کتابیں:
1) انُوکُل اور دیگر کہانیاں [ستیہ جِت رے | اردو قالب، تحقیق و مضامین: قیصر نذیر خاور]
2) بن پھول (بن پھولؔ کی منتخب کہانیاں) [بولائی چند مکھو پادھیائے المعروف بن پھولؔ | مترجم: احمد کمال حشمی]


دونوں کتابیں زیر مطالعہ ہیں۔ فی الحال مختصر تعارف سہی ۔۔۔۔


انُوکُل اور دیگر کہانیاں (ستیہ جِت رے | قیصر نذیر خاور)

ستیہ جِت رے کو بھلا کون نہیں جانتا۔ کم سے کم ہم نے تو اپنے لڑکپن اور نوجوانی کے دوران اپنے والد کے ادب دوست حلقوں میں رے کی شخصیت اور فن کا تذکرہ متعدد بار سنا ہے۔ بلکہ ایک مرتبہ تو والد صاحب نے نصابی کتاب میں شامل پریم چند کی کسی کہانی کا خلاصہ سناتے ہوئے فلم "شطرنج کے کھلاڑی" کا فنی اور ادبی تجزیہ بھی آسان الفاظ میں بیان کر دیا تھا۔ رے کی کہانیوں کو پڑھنے کا کچھ زیادہ اتفاق نہیں ہوا۔ بس اتنا یاد ہے کہ مشہور رسالہ "شمع" میں ان کی دو چار مختصر کہانیاں پڑھی ہیں۔


گذشتہ سال ماہ مئی میں رے کا صد سالہ یوم پیدائش ملک بھر میں منایا گیا۔ اسی موقع پر عصر حاضر کے ممتاز مترجم اور ادیب قیصر نذیر خاور کی متذکرہ بالا کتاب پاکستان میں منظر عام پر آئی۔ شکر ہے کہ سوشل میڈیا روابط نے سرحدوں کی دوریوں اور پابندیوں کو ختم نہ سہی تو کسی نہ کسی سطح پر کم ضرور کر دیا ہے۔ اسی باعث یہ نادر کتاب بھی اب ہندوستانی ادب دوست شائقین کے لیے بآسانی دستیاب ہے۔ کتاب کو خریدنے کا بس سوچا ہی تھا کہ دھارواڑ کرناٹک کی معزز استاذ، محقق اور ادیب محترمہ مہر افروز صاحبہ نے مجھ احقر کے نام بطور تحفہ ارسال کر دیا۔ میں ان کا دلی شکرگزار ہوں۔


یہ واضح رہے کہ ہندوستان میں اس کتاب کی اشاعت کے حقوق مہر افروز صاحبہ کے نام محفوظ ہیں۔ کتاب کا سرورق نہایت دیدہ زیب، کاغذ اور طباعت انتہائی معیاری اور قیمت بھی عین مناسب یعنی صرف 600 روپے (کتاب کے صفحات: تقریباً 400) ہے۔ ناشر میٹرلنک پبلشرز (لکھنؤ) ہیں جنہوں نے اپنے معیارِ طباعت کے باعث پبلشنگ کی دنیا میں اپنا نمایاں مقام بنایا ہے۔ مجھے قیمت کچھ زیادہ محسوس ہوئی تھی تو اس کی وضاحت میں قیصر صاحب نے اپنے ایک کمنٹ میں لکھا تھا: "یہ مصور کتاب ہے۔ اس میں اسی (80) سے زائد رے کے بنائے سکیچز ہیں کہانیوں کے ساتھ۔"
اس لحاظ سے قیمت پر اعتراض کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔


کتاب میں رے کی 18 کہانیوں کے تراجم ہیں۔ رے کے فن پر جہاں انگریزی میں تحریرکردہ قیصر صاحب کا ایک وقیع مضمون (بعنوان: The Saga of Satyajit Ray) (شائع شدہ: ویکلی ویوپوائینٹ، 12/مارچ 1992) ہے وہیں تقریباً 25 صفحات پر مشتمل ان کا طویل، دلچسپ اور معلوماتی مقالہ "ستیہ جِت رے: ایک طائرانہ جائزہ؛ متوازی دنیائیں" بھی شامل ہے۔ قاری کو سب سے پہلے اسی مقالے کا مطالعہ کرنا چاہیے، جس میں قیصر صاحب نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں رے کا فن کا ایک نہایت خوبصورت جائزہ پیش کیا ہے۔ آخر میں وہ لکھتے ہیں:
"میں نے ستیہ جِت رے کی جن 18 کہانیوں کو منتخب کر کے انہیں اردو میں ڈھالا ہے، اس سے ستیہ جِت رے کی تحاریر کے ارتقا کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ 1962ء سے 1990ء کے عرصے پر محیط ہیں اور اس عرصے کے بنگال کی وہ تصویریں پیش کرتی ہیں جن سے ہم میں سے اکثر ناواقف ہیں۔ ستیہ جِت رے کے بنائے، جن کہانیوں کے خاکے مجھے ملے وہ بھی اس کتاب میں شامل ہیں"۔


بن پھولؔ کی منتخب کہانیاں (بن پھولؔ | احمد کمال حشمی)

احمد کمال حشمی میرے عزیز دوست جاوید نہال حشمی کے بڑے بھائی ہیں۔ کچھ برس قبل کلکتہ وزٹ کے دوران ان کے دولت کدے پر نہ صرف ان سے ملاقات ہوئی بلکہ ان کی ادبی انجمن قرطاس و قلم کے ایک اجلاس میں مجھے اور میری اہلیہ کو افسانہ/مضمون پڑھنے کا موقع بھی ملا تھا۔ فیس بک کے ذریعے ان کے کچھ افسانچے نظر سے گزرے تو اس لیے حیرت ہوئی کہ میں انہیں شاعر ہی سمجھتا رہا ہوں۔ ان کے دو شعری مجموعوں "سفر مقدر ہے" اور "چاند تارے جگنو پھول" کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ اب انہوں نے اپنی یہ نثری کتاب راقم کے مطالعے کے لیے بھیجی ہے تو میں ان کا شکرگزار ہوں۔
زیرِ نظر کتاب کے دیباچہ (بعنوان: تیسرا خط) میں مترجم لکھتے ہیں: " بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ میں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز 1981ء میں افسانچہ نگاری سے کیا تھا"۔
بن پھول کے نام سے مغالطہ یہی ہوتا ہے کہ شاید کسی تخلیق کا عنوان ہے۔ اسی کی شکایت احمد کمال حشمی یوں کرتے ہیں:
مغربی بنگال کے اردو کے بیشتر شعرا اور ادبا، رابندرا ناتھ ٹیگور، قاضی نذرالاسلام اور سرت چندر چٹرجی کے سوا کسی اور نام سے واقف بھی نہیں ہیں۔ بنگلہ ادب سے اردو والوں کی لاتعلقی اور لاعلمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مترجم نے بن پھولؔ کی ایک کہانی بعنوان 'مسٹر مکھرجی' کلکتہ کے اردو اخبار میں اشاعت کے لیے بھیجی تو اشاعت کے بعد سرخی میں کہانی کا عنوان تھا 'بن پھول' اور مصنف کا نام لکھا گیا 'مسٹر مکھرجی'۔


بن پھولؔ بنگلہ ادب کا ایک بہت ہی معتبر اور محترم نام ہے۔ وہ شاعر، ادیب اور ڈراما نگار تھے، جن کا اصل نام بولائی چند مکھو پادھیائے تھا۔ ان کی پیدائش 19/جولائی 1899 کو ریاست بہار میں اور 80 سال کی عمر میں انتقال 9/فروری 1979 کو ہوا تھا۔ 1999ء میں ان کی پیدائش کی 100 ویں سالگرہ پر حکومتِ ہند نے ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا۔


اپنی شکایت کے ازالے کی خاطر پہلا قدم خود احمد کمال حشمی نے اٹھایا ہے اور یوں بن پھول کی تقریباً 100 تخلیقات کو اردو میں متعارف کرانے کی خاطر اس کتاب کی اشاعت عمل میں لائی ہے۔ یہ 102 افسانچے ہیں اور عدم دستیابئ فرصت کی شکایت کرنے والے قاری کو بھی بھی مطالعے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ مگر کیا یہ وقت کی کمی ہے یا شوق کی موت؟ اس کو جاننے اور اس پر غور کرنے کے لیے محض دو صفحات پر مشتمل افسانچہ "قاری کی موت" ضرور پڑھا جانا چاہیے۔ مترجم نے یہ بات واقعی سچ لکھی ہے کہ: "اس کتاب میں شامل کہانیوں میں کچھ حیرت ناک ہیں، کچھ دردناک، کچھ مزاحیہ تو کچھ اساطیری"۔ چند کہانیاں جو میں نے یونہی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے پڑھ لی ہیں، اس بات کی گواہی دیتی ہیں۔


ادبی تخلیقات کی اردو ترجمہ نگاری کی طرف متوجہ کرتے ہوئے یوں تو احمد کمال حشمی نے بنگلہ زبان کی طرف توجہ دلائی ہے مگر دیکھا جائے تو اس کی ضرورت ہندوستان کی ہر زبان کے شعر و ادب کو لاحق ہے۔ اس لحاظ سے احمد کمال حشمی کا یہ مشورہ نہایت صائب ہے:
"مترجمین ادھر ادھر کی منتخب نظموں اور کہانیوں کا ترجمہ کرنے کے بجائے کسی مخصوص شاعر یا کہانی نویس کی پچیس تیس نظموں یا کہانیوں کے ترجمے کریں تاکہ اردو کے قارئین غیر زبان کے شاعروں اور ادیبوں سے واقف ہو سکیں۔"


اسی ضمن میں شاید یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ راقم کے پھوپھا (مرحوم) پروفیسر غیاث متین (سابق صدر شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ) نے تلگو کے نامور اور رجحان ساز شاعر این۔گوپی (سابق وائس چانسلر پوٹی سری راملو تلگو یونیورسٹی) کے گیارہ شعری مجموعوں سے 100 منتخب نظموں کو اردو کے قالب میں ڈھال کر کتاب "گوپی کی 100 نظمیں" (سن اشاعت: اگست 2005ء) کے ذریعے پیش کیا تھا۔


اختتامیہ:

عجیب بات ہے کہ پچھلے ہی دنوں بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کے بنگال کے پس منظر میں بنائی گئی ایک حیرت انگیز تلگو فلم "شیام سنگھا رائے" (پیریڈ رومانٹک ڈراما) دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ فلم کا مرکزی نقطہ گو کہ تناسخ/آواگون ہے، مگر بنگال کی تہذیب و تمدن کو جس طرح ایک رومانی کہانی کے ذریعے پیش کیا گیا ہے، وہ بلاشبہ قابل تحسین ہے۔ حیدرآباد کے اداکار گھنٹا نوین بابو (المعروف: نانی) نوجوان فلمی حلقوں میں کافی مقبول تو ہیں مگر کم از کم ناچیز تو نانی کی اداکارانہ صلاحیتوں کا پہلی بار قائل اسی فلم کے ذریعے ہوا ہے۔ خاص طور پر 1970 کے انقلابی جہدکار اور ادیب شیام سنگھا رائے کے کردار میں انہوں نے گویا جان ڈال دی ہے۔ اس فلم پر تبصرہ پھر کبھی سہی۔


Anukul aur deegar kahaniyan, Translated by: Qaiser Nazeer Khawar (Edition: 2021)
Ban Phool (Banphool's selected short stories), Translated by: Ahmad Kamal Hashami
Review by: Mukarram Niyaz.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں