حیدرآباد کی نمائش اور یادِ ماضی - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2022/02/25

حیدرآباد کی نمائش اور یادِ ماضی

hyderabad numaish

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
25/فروری/2022
*****

#جمعہ_مبارک
#نمائش_مبارک


"نمائش" - یعنی کہ حیدرآباد (دکن) کا مقبول عام تفریح و مصنوعات خریداری کا وہ سالانہ مرکز جس کا آغاز 1938ء میں ہوا تھا۔ یہ دنیا کا غالباً واحد ایسا ایونٹ ہے جو 23 ایکڑ کے رقبے (ایگزیبیشن گراؤنڈز، قریب نامپلی ریلوے اسٹیشن، حیدرآباد) پر تقریباً 40/45 دن تک مسلسل جاری رہتا ہے (یکم جنوری تا 10/15 فروری)۔
آصف سابع نظام میر عثمان علی خاں کے دورِ حکمرانی میں جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل چند طلبا نے "نمائش" کی داغ بیل ڈالی تھی تاکہ ریاست حیدرآباد کی مصنوعات کی خریداری کو فروغ مل سکے۔
نمائش کا اصل نام تھا: "نمائش مصنوعاتِ ملکی" جو مختصراً "نمائش" کے نام سے مشہور ہوا۔ بعد ازاں اس کا نام بدل کر "آل انڈیا انڈسٹریل ایگزیبیشن" کیا گیا مگر پھر حیدرآبادی عوام کی شکایت پر 2009ء میں اصل نام "نمائش" کی واپسی ہوئی۔ اور 2020ء میں یہ نام (Numaish®) رجسٹرڈ بھی کر دیا گیا۔


سال 2021ء میں کورونا وبا کے باعث اور حکومت کے حکم پر نمائش کا انعقاد نہ ہو سکا۔ امسال یکم جنوری کو گورنر ریاست تلنگانہ نے نمائش کا افتتاح تو کیا تھا مگر اومیکرون کی بڑھتی وبا کے سبب دوسرے ہی دن 2/جنوری سے نمائش کو روک دیا گیا تھا۔ اور حکومتی اجازت کے بعد، آج بروز جمعہ 25/فروری سے اسی "نمائش" کا دوبارہ آغاز ہونے جا رہا ہے۔


آج کی نسل کو شاید یہ بھی پتا نہ ہو کہ چند برس قبل تک نمائش میں کچھ اسٹالس پڑوسی ممالک کے بھی لگا کرتے تھے یعنی نیپال، برما، بنگلہ دیش اور پاکستان کی مصنوعات کے۔ نیپال کے سوئٹر اور پاکستان کے ملبوسات والے اسٹالوں پر خواتین کی بھیڑ زیادہ پائی جاتی۔ شاید کارگل جنگ کے بعد سے نمائش میں ان ممالک کا داخلہ بند ہو گیا ہے۔


بیسویں صدی کی آٹھویں اور نویں دہائی کے نوجوانوں کے لیے اس وقت کی یہ واحد ایسی تفریح تھی جو گھر سے باہر، گویا شہر اور ریاست سے باہر والی سیر و تفریح کا مزہ دیتی تھی۔ متعدد نوجوان تو ہر اتوار بپابندی وزٹ کیا کرتے۔ جبکہ ہم لوگ کم از کم تین بار کا دورہ لازمی کیا کرتے تھے۔ ایک بار گھر والوں کے ساتھ، ایک دفعہ دوست احباب کے ساتھ تو ایک مرتبہ صرف دو دوست۔ کزنز اور دوست کے ساتھ نمائش جانے کا مقصد بس بھانت بھانت کے لوگوں کا مشاہدہ کرنا ہوتا۔ خریداری وریداری کچھ نہیں۔۔۔ ہاں یہ روٹین ضرور تھا کہ چاٹ مرچیاں یا بھیل پوری کھانا، وجے ڈیری کی آئسکریم کا مزہ اڑانا اور جھولوں میں بیٹھنا۔ واپسی میں گھر جاتے ہوئے گھر والوں کے لیے پاپ کارن کا پیکٹ، کھجلا (میرٹھ کی مٹھائی) اور آگرہ کا پیٹھا لے لیا جاتا۔


اور ہاں فوٹو اسٹڈیو پر ایک مشترکہ تصویر ضرور لی جاتی۔ ظاہر ہے نہ وہ کیمرہ کا زمانہ تھا اور نہ موبائل سیلفی کا۔ دو روپے میں سنگل تصویر اور پانچ روپے میں گروپ فوٹو۔ اسٹائلش تصاویر کھنچوانے کا رجحان تھا تو پس منظر کے رنگین پردے بھی فوٹو اسٹڈیو میں آویزاں رہتے۔ اس تحریر سے منسلک ایک تصویر فروری 1983 کی ہے یعنی 39 برس قبل۔
پوز فلم "شکتی" (دلیپ کمار، امیتابھ بچن) کے باپ بیٹے کا ہے۔ دلیپ کمار والا پوز راقم کے چچازاد سہیل عظیم نے دیا اور بگ بی کون؟ تو یہ بتانے کی بھلا کیا ضرورت۔

mukarram niyaz and sohail azeem

دوسری گروپ فوٹو میں دائیں سے بائیں: راقم کے کزن عظیم قریشی (ورنگل)، سہیل عظیم، پروفیسر محمد رفیع الدین (ساؤتھ پیسیفک یونیورسٹی، فیجی)، برادر خرد معظم راز اور مکرم نیاز۔

mukarram niyaz, azeem qureshi, rafiuddin, moazzam raaz, sohail azeem

نمائش کے اردو بک اسٹال کی یادیں بھی شاید کبھی فراموش نہ کی جا سکیں گی۔ میں اور میرا دوست رفیع ایک ڈیڑھ گھنٹے تک بس گھومتے پھرتے مختلف موضوعات کی کتابیں ایسا کھنگالتے جیسے بوری بھر کر خرید لے جانے کا ارادہ ہو۔ مگر اس مختصر سے وقفے میں لاتعداد پاکستانی کتب و رسائل کے ڈھیروں صفحات ہم دونوں کھڑے کھڑے پڑھ جاتے۔ پھر بک اسٹال چھان مارنے کے بہانے مطالعہ کی تشفی بعد پنجاب پستک پھنڈار کی بالغوں کے (فحش) لطیفے یا میاں بیوی کے چٹکلے والی پانچ/دس روپے کی پاکٹ سائز کتاب خرید کر واپسی بس کے سارے راستے کے دوران لطیفے پڑھتے اور زور و شور سے قہقہے اچھالتے ۔۔۔ اور بس کا بچارا کنڈکٹر بچارا ہر تھوڑی دیر کو آ کر "کیا ہوا بھائی، کیا ہوا بھائی" کی گردان کرتا رہ جاتا۔

hyderabad numaish

خیر، "نمائش" کی یادیں بھی کیا یادیں ہیں کہ بقول سید شکیل دسنوی (لفظ "ہجر" کی تصریف کے ساتھ):
شکیلؔ 'نمائش' کے زینوں پہ رک گئیں یادیں
اسی مقام پر آ کر ٹھہر گئی شب بھی !!


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں