© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
27/فروری/2022
*****
ہمارے حبیب لبیب #مرزا بہت دن بعد اتوار صبح کی چائے پر بارہ بجے کے قریب مخصوص ہوٹل میں ملے۔ اور ملتے ہی مجھ ناچیز کی زبان سے خود مرزا کی ایجاد کردہ متنوع قسم کی گالیاں پے در پے سنیں تو پہلے ہکا بکا ہوئے، مگر جب ایک گالی کے بیچ "بھنسالی" کا نام سنا تو قہقہہ در قہقہہ لگانے لگے۔
"لا ملا پاشا ہاتھ ۔۔۔ تیرے منہ میں گھی شکر اور اس سالے بھنسالی کے منہ میں ۔۔۔۔"
آگے جو مرزا کی نوایجاد کردہ اصطلاح رہی وہ نہایت ہی ناقابلِ اشاعت ہے۔ معذرت
اتفاق سے مرزا بھی کل پرانے شہر کی ایک مشہور ملٹی پلیکس میں "گنگو بائی کاٹھیاواڑی" دیکھ آئے تھے اور ہماری طرح موڈ ان کا بھی خراب تھا۔ بولے کہ آدھی برقعہ پوش پبلک کو سانپ سونگھا ہوا تھا اور باقی آدھی روایتی حیدرآبادی کوسنے دیتے باہر نکل رہی تھی۔
ہم بھی پرانے شہر کے باسی ہونے کے سبب یہیں کی تھیٹروں سے فیضیاب ہوتے ہیں، مگر اس دفعہ ذرا نئے شہر کا جائزہ لینے ایک مشہور پی۔وی۔آر سنےپلیکس چلے گئے۔ مگر خدا جھوٹ نہ بلوائے، آغاز درمیان اور اختتام کے قریب دو چار پانچ لوگ اپنی نشستیں چھوڑ کر واپس جا رہے تھے۔ تقریباً یہی صورتحال گذشتہ ہفتے دیکھی گئی "بدھائی دو" پر بھی نظر آئی تھی۔ اس لحاظ سے ہمارے کچھ فلم کریٹکس دوستوں کا یہ کہنا بجا لگتا ہے کہ بالی ووڈ بانجھ ہوتا جا رہا ہے اور ساؤتھ انڈیا معیاری فلمیں دینے میں اپنی مقبولیت قائم کر رہا ہے، مثلاً حال کی یہ چند فلمیں: جئے بھیم، ماناڈو، پشپا، شیام سنگھا رائے، درشیم-2، ڈاکٹر، ماسٹر وغیرہ۔ اور آنے والی ٹرپل آر، رادھے شیام اور کے۔جی۔ایف۔ٹو۔
اس فلم گنگو بائی کے اختتام پر، ساتھ والی نشست سے اٹھتے، جینس پینٹ ہاف ٹی شرٹ میں ملبوس ایک تقریباً ساٹھ سالہ بزرگ کا، گجراتی لہجے میں اپنی رفیقہ کار سے کیا گیا گرم شکوہ سنائی دے گیا تھا:
"ہر کوئی کمال امروہی نہیں بنتا! کیا پاکیزہ کے گانے آج بھی ہم تم نہیں سنتے؟ کیا پاکیزہ کا کوئی سین دیکھتے ہوئے ہم کو نظریں جھکانی پڑی تھیں؟"
جی میں آیا کہ کہا جائے: گھر پہنچنے تک گنگوبائی کا کوئی ایک گانا بھی یاد نہیں آئے گا۔
خیر مرزا کو گجراتی بزرگ کا مکالمہ سناتے ہوئے کہا:
"ہم تم نے انٹرمیڈیٹ میں پڑھا تھا 'آنندی'۔ وہ صرف ایک افسانہ تھا، مگر غلام عباس آج بھی اسی ایک افسانے کے بل پر ادبی دنیا میں مشہور ہے۔ کاش بھنسالی کو کوئی وہ افسانہ ہی پڑھوا یا سنا دیتا۔"
"وہ سوب جان دو پاشا۔ ایک افسانہ ہو یا دس ناول۔۔۔ میرے کو اس سے مطلب اچ نئیں۔ میں نے بھنسالی کی جن جن فلموں کی تعریف کی تھی وہ سوب آج واپس لے لیا سمجھو۔۔۔"
مرزا نام گنانے لگ گئے:
"ہم دل دے چکے صنم، سانوریا، خاموشی، پدماوت، باجی راؤ مستانی"
پھر حیدرآبادی اشٹائل میں آدھی پیالی والی بچی چائے زور سے سڑکی اور بآواز بلند گنگناتے نکل گئے:
تیری دنیا سے ہو کے مجبور چلا
میں بہت دور، بہت دور، بہت دور چلا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں