© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
3/فروری/2022
*****
آج کل پڑوس کے ممتاز قلمکاروں کی فیس بک پوسٹس میں ایک قضیہ چل رہا ہے کہ:
پاکستان کا قومی ترانہ اردو میں لکھا گیا ہے کہ فارسی میں؟
کیونکہ۔۔۔ کہا جا رہا ہے کہ مقبول عام ادیب عمیرہ احمد نے اپنے تازہ ڈرامہ "صنف آہن" کی حالیہ قسط میں ایک کردار کی زبانی یہ کہلوایا ہے کہ: "پاکستان کا قومی ترانہ فارسی زبان میں تحریر کیا گیا ہے"۔
(حالانکہ ہندوستان میں اردو کا عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ یہ ترانہ اردو میں ہے، فارسی میں نہیں)
اس ضمن میں، ناچیز کے ایک کمنٹ پر، معروف ادیب عابد علی بیگ صاحب نے ہندوستانی قومی نغمہ 'جن گن من' سے متعلق ایک سوال پوچھا ہے، جس کے جواب سے قبل ایک یادگار واقعہ پڑھ لیجیے۔
یہ 1987 کے اواخر کی بات ہے۔ انجینئرنگ گریجویشن کا تیسرا سال تھا۔ حیدرآباد کی "رائل" ٹاکیز (سلطان بازار کی قدیم ترین "دلشاد" ٹاکیز کے بازو واقع سینما گھر) میں ایک فلم ریلیز ہوئی، نام تھا:
"کامیابی"
اور حیدرآباد کے باشندوں کے لیے سب سے حیرت انگیز امر یہ تھا کہ وہ ایک پاکستانی فلم تھی، جو کل ہند سطح پر ہندوستانی فلم سنسر بورڈ کی باقاعدہ منظوری و اجازت کے بعد ملک کے مختلف سینما گھروں میں پیش کی گئی تھی۔ پاکستان کی 1984 میں ریلیز ہوئی اس فیملی ڈرامہ فلم کے اداکار تھے: ندیم، شبنم، طلعت حسین اور صبیحہ خانم۔
ہندوستان میں ریلیز شدہ پرنٹ کے پروڈیوسر غالباً ممبئی کے حنیف اور سمیر تھے۔ فلم کے آغاز پر، ان دونوں نے اسکرین پر آکر فلم کا چند لفظی تعارف بھی کروایا تھا اور کہا تھا کہ حکومت ہند کی اجازت سے ہی یہ فلم پیش کی جا رہی ہے۔
فلم بہت دلچسپ لگی، سو اس غریب نے دو بار دیکھی۔ ایک بار کزنز کے ساتھ اور دوسری بار کالج کے دوستوں کے ہمراہ۔ یہ بھی یاد ہے کہ اس فلم نے مارننگ شو میں 100 دن مکمل کیے تھے اور اس کے دو نغمے پرانے شہر کی گلیوں میں مقبول ہوئے تھے: 'جو زمانے میں ہمت نہ ہارے' اور 'جانِ من تیری نشیلی آنکھوں کا میں ہو گیا دیوانہ'
اب سب سے دلچسپ بات سنیے، بلکہ دو باتیں۔
فلم کے درمیان 14/اگست کا دن آتا ہے اور پاکستانی یوم آزادی کی ایک تقریب کے دوران پاکستانی حب الوطنی پر مبنی ایک گانا بھی بجتا ہے! (یعنی وہ گانا اور گانے کا منظر سنسر نہیں کیا گیا تھا)
"ہے اپنے وطن سے پیار ہمیں"
اور دوسری دلچسپ بات یہ کہ فلم کے اختتام پر پاکستانی قومی ترانہ پس منظر میں گونجتا ہے اور سامنے اسکرین پر اردو میں ایک تحریری پٹی چلتی ہے کہ: ازراہ کرم قومی ترانہ کے احترام میں کھڑے ہو جائیں ۔۔۔۔
اور مزید دلچسپ بات یہ کہ مسلم/غیرمسلم فلم بینوں کی اکثریت کھڑی بھی ہو گئی تھی۔ مجھ سمیت!
یہاں میں ایک اور واقعہ یاد دلا دوں۔
نومبر 1997 میں اپنی کراچی وزٹ کے دوران، میں نے اپنے میزبان اور ان کے دونوں بچوں کے ساتھ کراچی کے "نشاط" سینما میں ایک فلم دیکھی تھی: "دیوانے تیرے پیار کے" (ریلیز: نومبر 1997، اداکار: معمر رانا اور جیا علی)۔ مگر فلم کے اختتام پر قومی ترانہ کی گونج سن کر کھڑا نہیں ہوا اور میزبان کو دلیل یہ دی کہ میری قومیت تو پاکستانی نہیں ہے۔
بہرحال 35 سال پہلے کی یہ داستان ہے۔۔۔ اور آج تو شاید کوئی خواب میں بھی ایسا تصور نہ کر سکے کہ پڑوسی ملک کی کوئی فلم باقاعدہ یہاں کے سینما گھروں میں چل سکے اور وہ بھی پاک قومی ترانہ کے ساتھ!
اگر کسی کے نزدیک ہندوستان کی ایسی بین الاقوامی "ترقی" حب الوطنی کا معیار ہے تو ایسی سوچ پر سوائے اظہار افسوس کے، اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
اب کچھ عابد علی صاحب کے اس سوال کا جواب:
"کیا ہندوستان کے قومی ترانے کی زبان ملک کے طول و عرض میں عام لوگ بخوبی سمجھتے ہیں؟ اگر نہیں تو وہ لوگ اعتراض تو نہیں کرتے جہاں سمجھا نہ جاتا ہو؟"
جواباً عرض ہے کہ ہندوستان کا قومی ترانہ "جن گن من" بنگلہ زبان میں ہے اور جو ہندوستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ ادیب رابندر ناتھ ٹیگور کا تحریر کردہ ہے۔ سنہ 1912 میں لکھے گئے اس نغمے کو 24/جنوری 1950 کے دن قومی ترانہ کی سرکاری حیثیت عطا کی گئی۔ ملک کی ہر نصابی کتاب کے اولین صفحات پر یہ ہندی دیوناگری اور متعلقہ زبان کے رسم الخط میں شائع کیا جاتا ہے، اور متعلقہ زبان میں ترجمہ بھی۔ اس کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ ملک کے طول و عرض کے عوام اسے بخوبی سمجھتے ہوں۔
راقم کے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں کہ کسی نے انفرادی یا اجتماعی سطح پر، اس ترانے یا اس کی زبان پر کوئی اعتراض کیا ہو۔ زبان نہ سمجھ پانے کے باوجود، بچے بڑے نوجوان بوڑھے کی اکثریت کو یہ ترانہ زبانی یاد ہوتا ہے۔ (خود مجھے اور میرے تمام اہل خانہ کو یہ قومی نغمہ ازبر ہے)۔ البتہ کچھ سال قبل قومی ترانہ کے موضوع پر ہنگامہ ضرور اٹھا تھا، جب مرکزی حکومت نے سینما گھروں میں ہر فلم کے آغاز پر اسے بجانے کا سرکاری حکم نافذ کیا اور فلم بینوں کو مجبور کیا کہ وہ قومی ترانہ کے احترام میں کھڑے ہو جائیں ورنہ سزا بھگتنے تیار رہیں۔ یہ حکم آج بھی نافذالعمل ہے۔ اور جو سماجی جہدکار اور دانشور ایسے جبری حکم پر احتجاج کرتے ہیں وہ بالکل بجا کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ۔۔۔ ہندوستان کی عدالت عالیہ نے 30/نومبر 2016 کو یہ ہدایت جاری کی تھی کہ ملک کے تمام سینما گھروں میں، فلم کے آغاز سے قبل، 52 سیکنڈ کا متذکرہ قومی ترانہ لازمی بجایا جائے۔ بعد ازاں 9/جنوری 2018ء کو سپریم کورٹ نے اپنے سابقہ حکم میں ترمیم کرتے ہوئے "لازمی" [mandatory] کو "اختیاری" [optional] کر دیا۔
دوسری اہم بات یہ کہ ۔۔۔ ہندوستانی آئین کے بموجب، قومی ترانے کے وقت احتراماً کھڑا ہونا واجب ہے، لیکن ترانے کے بول اپنی آواز میں دہرانا یا پرچم کو سلام کرنا، واجب نہیں بلکہ اختیاری ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں