© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
31/جنوری/2022
*****
ہمارا ایک نوجوان صحافی دوست لکھتا ہے:
سوشل میڈیا پر مسلسل ایکٹو رہنے، پوسٹ لکھنے، دوسروں کی تحریروں پر کمنٹس ، شیئر ،لائک اور اپنی سوچ کے مطابق کسی کا نقطہ نظر کو آگے بڑھانے کا بھی ہم پر یہ اثر ہوتا ہے کہ ہم خود کو کئی مرتبہ بہت اہم سمجھنے لگتے ہیں۔ ہم محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اس کائنات کی حرکت ہمارے لکھنے، پڑھنے اور متحرک رہنے کی وجہ سے ہے۔ یہ اثر اتنا خفیف ہوتا ہے کہ ہمیں خبر تک نہیں ہوتی اور ہم بس اپنی دھن میں ہی مست و مگن رہتے ہیں، لیکن یہ اثر بہت گہرائی تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔
محمد علم اللہ (نئی دہلی)
اس پر تبصرہ از طرف مکرم نیاز:
ابے او ڈربے کے چوزے، شادی کر پہلے!!
ایسے تبصرے/تجزیے صرف غیرشادی شدہ لونڈوں کے ناقص ذہن کی کارفرمائی ہوتی ہے۔
شادی شدہ تو اس جھمیلے میں پھنس ہی نہیں سکتے ۔۔۔ کیونکہ ان کے پیچھے لاٹھی ہوتی ہے، شریکِ سفر کی، بچوں کی، دوڑتی بھاگتی ہانپتی تنگ محدود معیشت والی زندگانی کی ۔۔۔ جو اڑنے والے کو لمحہ بھر میں زمین پر لا پھینکتی ہے:
*****
** ذرا آتے وقت دہی ہری مرچ کوتھمیر لیتے آنا، آدھ پاؤ چھوٹا اور آدھ کلو بڑا گوشت بھی
** بچے کا پیمپر اور دودھ کے ڈبے ختم ہو گئے۔۔۔ تنخواہ ختم ہو گئی نکو بولو، قرضہ لو کچھ بھی کرو ۔۔۔
** پری زاد، رقیب سے، خدا اور محبت ۔۔۔ ذرا شروع کرنے سے پہلے دال کو بگھار دینا بیگم، اور تھوڑا پاپڑ بھی تل دینا
** ہر شادی میں جانا ضروری تو نہیں ناں، اے میرے پیارے بچوں کی اماں جان۔۔۔ ایک آدھ ڈراپ بھی کر لیا کرو۔ پہلے ہی کورونا ہے اور کپڑوں زیوروں کے دام بھی بہت بڑھ گئے ہیں ۔۔۔۔
** ابو، اسکول والے لاسٹ ائر کی پوری فیس بندھو بول رہے ہیں، نہیں تو ایگزام میں نہیں بٹھاتے بول رئیں ۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں