© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
6/فروری/2022
*****
"بےبی ڈول ۔۔۔ بےبی ڈول ۔۔۔ لتا آشا نہیں چلے گی، نہیں چلے گی"
1988 کا ذکر ہے۔ کالج میں کوئی فنکشن تھا جس کے اختتام پر کچھ طلبا نے اساتذہ کی شہ پا کر اسٹیج پر اپنی آواز کا جادو جگانا شروع کیا۔۔۔ مگر نغمے وہی پرانے۔۔ لتا رفیع مکیش کشور۔ اس دور میں نوجوان گجراتی گلوکارہ علیشا چنائے کا عروج ہو رہا تھا۔۔۔ بےبی ڈول، کوچی کُو، اے۔بی۔سی۔ڈی، زوبی زوبی، اٹس اے ڈانس پارٹی ۔۔۔ لہذا ہم فائنل ائیر والوں نے علیشا کے حق میں شور مچانا شروع کر دیا۔ یہ الگ بات کہ ہم تعداد میں بھی کم اور کسی کی گلوکاری میں بھی نہیں دَم۔
اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد، عمر میں کچھ سینئر ایک ہم جماعت نے پکڑا اور لمبا لیکچر دے دیا کہ یار تم جیسا اردو دوست کن چکروں میں پڑ گیا؟ وہ کوئی آواز ہے، کوئی بول ہیں؟ سننا ہے تو لتا جی کو سنو۔
ناچیز نے اپنی مجبوری بھی بتائی کہ کبھی "خاتونوں" کی آواز میں دلچسپی نہیں رہی۔۔۔ بہت ہوا تو انورادھا پودوال کو سن لیا یا کبھی الکا یاگنک یا سادھنا سرگم کو۔ مگر خورشید بھائی نے لتا پر ہی اصرار کیا اور "دی بسٹ آف لتا" نامی دو آڈیو کیسٹ بھی ہاتھ میں تھما دئے۔
وہ ٹیب ریکارڈ کا زمانہ تھا۔ پانچ روپے میں ایک آڈیو کیسٹ ملا کرتی تھی۔ جس طرح آج ہر دس قدم پر ایک موبائل شاپ نظر آتی ہے اسی طرح اس زمانے میں ہر دس پندرہ قدم کی کسی دکان میں آڈیو کیسٹیں مل جاتی تھیں۔ گلشن کمار کی ٹی-سیریز کی شہرت و مقبولیت شروع ہو رہی تھی۔ ہر نئی فلم کے گانوں کی آڈیو کیسٹ فلم کی ریلیز سے ماہ دو ماہ قبل ٹی-سیریز کے ذریعے دستیاب ہو جایا کرتی۔
بہرحال میں نے لتا جی کے گانے سننا شروع کیے۔ ہرچند کہ کیسٹ میں آواز لتاجی کی نہیں تھی بلکہ وہ "سجاد علی" کی آواز میں لتا کے گائے ہوئے نغمے تھے۔ ہاں ہاں وہی لاہور والے سجاد 'گاگی' بھائی جن کے فرزند خوبی علی کا پہلا نغمہ "اداس" پچھلے سال ہی ریلیز ہوا ہے۔ تو سجاد علی کے گائے "لتائی نغموں" کو ٹی-سیریز نے الٹے بانس بریلی پر چڑھا رکھا تھا اور دھڑا دھڑ ویلیوم ون، ٹو، تھری، فور وقفہ وقفہ سے مارکٹ میں وارد ہو رہے تھے۔ اب ہر کسی کو تو نسائی آواز کے اتار چڑھاؤ، نزاکت، سُر و لَے کی باریکیوں کا علم ہوتا نہیں، بلکہ بقول ہمارے دوست #مرزا کے ایک بےحد پرانے ڈائیلاگ کے مطابق:
"پاشا، لڑکی ہے تو بس۔ یعنی: لڑکی ہے کیا رے بابا، اس کی ادا رے بابا"
مگر اصل بہرحال اصل ہوتا ہے۔ تو ایک دن اتوار کو، امتحانات تیاری کے دوران، اسٹڈی ڈیسک پر دھرے ٹیپ ریکارڈ سے، لتا کے نغموں کے سہارے سجاد علی نسائی آواز میں بج رہے تھے۔ بڑی بہن آئیں اور ایک کھٹاکے سے کیسٹ نکال کر فرسٹ فلور سے گراؤنڈ فلور پر پھینک دیا، اور برہمی سے بولیں:
"کمبخت نقلچی، بھدا، بےسرا، ہیجڑا"
"ارے بیوقوف سننا ہے تو لتا کی اصل آواز میں سنو"
یہ کہا بھی اور جا کر شکایت بھی والد صاحب سے جڑ دیں جو ان دنوں چھٹی پر سعودی عرب سے حیدرآباد آئے ہوئے تھے۔
بات صرف اتنی تھی کہ لتا کے اوریجنل آڈیو کیسٹ کے مکمل حقوق معروف میوزک کمپنی ایچ۔ایم۔وی کے پاس محفوظ تھے اور اس کی قیمت فی کیسٹ پچیس روپے سے کم نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اوریجنل مال کے بجائے ڈپلیکیٹ سے ہم غریب غربا کام چلایا کرتے تھے۔
خیر پھر بعد میں یہ ہوا کہ والد صاحب نے لتا کی متعدد آڈیو کیسٹیں روانہ کیں، خوشی، غم، شوخ، چنچل، اداس، پیار، رومان، بہار ۔۔۔ جانے کتنے ہی انسانی جذبات، احساسات اور رویوں سے جڑی سدا بہار آواز۔۔۔ ہم گنتے جائیں اور گنتی ختم ہونے نہ پائے۔ بڑا سچ لکھا تھا شکور پٹھان نے اپنے یادگار مضمون "سُر سرسوَتی - لتا منگیشکر" میں کہ:
"کس میں ہمت ہے کہ لتا جی کے مقبول ترین گانوں کی فہرست بنا سکے۔ اگر میں ان کے سو مقبول ترین گانے لکھ دوں تو آپ اتنے ہی مقبول دو سو گانے مجھے بتا دیں گے۔"
ہمارے سب سے چھوٹے (مرحوم) چچا نے جو 1960ء اور اس سے قبل کے دور کی فلموں، نغموں اور مکالموں پر کمال کی یادداشت رکھتے تھے، برسوں قبل لتا کے نٖغموں کی ایک فہرست کھڑے کھڑے اس وقت زبانی سنا دی تھی، جب بہن صاحبہ نے ان سے بھی شکایت کر دی تھی کہ مکرم کو سمجھائیے کہ خود لتا کے گائے ہوئے گانے ہی اصل آواز ہے، باقی سب تو ٹیسٹ کو بگاڑ دیتے ہیں۔
آڈیو سی۔ڈی، اس کے بعد ویو (wav) فائلیں اور پھر ایم۔پی۔تھری (mp3) کا دور آیا تو وہی فہرست پہلے ویو فائلوں اور بعد میں ایم۔پی۔تھری شکل میں میرے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، سی۔ڈی اور پھر موبائل میں منتقل ہوتی رہی اور آج بھی موجود ہے۔ جن میں سے ٹاپ ٹین یہ رہے:
- یہ دل اور ان کی نگاہوں کے سائے
- اک پیار کا نغمہ ہے
- کسی راہ میں کسی موڑ پر
- پھر دل نے پکارا ہے اک بار چلے آؤ
- اٹھائے جا ان کے ستم اور جیے جا
- وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے
- آپ یوں فاصلوں سے گزرتے رہے
- اہلِ دل یوں بھی نبھا لیتے ہیں
- اے دلِ ناداں آرزو کیا ہے
- دل میں کسی کے پیار کا جلتا ہوا دیا
اور آج ۔۔۔
آہ ہ ہ ۔۔۔!!
صبح اٹھتے ہی موبائل پر گوگل نیوز ڈسکوور میں پہلی ہی خبر نے بتایا کہ آواز کی دنیا کا طوفان تھم چکا ہے:
جیون کا مطلب تو، آنا اور جانا ہے!
طوفان تو آنا ہے، آ کر چلے جانا ہے
بادل ہے یہ کچھ پل کا، چھا کر ڈھل جانا ہے
پرچھائیاں رہ جاتیں، رہ جاتی نشانی ہے
زندگی اور کچھ بھی نہیں، تیری میری کہانی ہے
اک پیار کا نغمہ ہے، موجوں کی روانی ہے
۔۔۔ زندگی اور کچھ بھی نہیں
۔۔۔ موجوں کی روانی ہے!
الوداع لتا جی !!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں