ماخوذ از:
لغات روز مرہ (تیسرا ایڈیشن، نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ)۔ سنہ اشاعت: 2011ء
صفحہ: 49۔
*****
مرے ہوئے لوگوں کے نام پر اردو میں "مرحوم / مرحومہ" بڑھانے کی رسم ہے۔ یہ رسم بہت پرانی نہیں۔ شیکسپیئر کے لغت میں "مرحوم" کے مجازی معنی Deceased یعنی "مردہ، مرا ہوا، فوت شدہ، وغیرہ" درج ہیں۔
"نور اللغات" میں تخصیص ہے کہ یہ لفظ صرف مسلمان مردے کے لیے ہے، ہندو مردے کے لیے "سورگ باشی" بولتے ہیں۔
لہذا یہ سوال تو ہے ہی کہ جو مردہ نہ مسلمان کا ہو نہ ہندو کا، اس کے لیے کیا بولیں؟ دوسری قباحت یہ ہے کہ اپنے مردوں کے لیے "سورگ باشی" یا "سورگیہ" کا لفظ صرف ہندو استعمال کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے یہاں اس کا رواج نہیں دیکھا گیا۔ یعنی مسلمانوں کے یہاں موتیٰ کے لیے "سورگ باشی" یا "سورگیہ" مستعمل نہیں۔
یہ بات واضح نہیں کہ غیر مسلم مردے کو "مرحوم" کیوں نہ کہا جائے؟
شاید اس خیال سے کہ غیر ہندو مردے کو عام بول چال میں "سورگ باشی" نہیں کہا جاتا، کسی نے "آں جہانی" کی اصطلاح وضع کی، اور اب یہ لفظ تمام غیرمسلم موتیٰ کے لیے بولا جاتا ہے۔
یہ اختراع تازہ ہے۔
"نور اللغات"، "امیر اللغات" اور "آصفیہ" میں اس کا ذکر نہیں۔ یہ لفظ مسلم اور غیرمسلم میں ایک غیرضروری اور تکلیف دہ تفریق کرتا ہے۔ "مرحوم" کے معنی ہیں: "مہربانی کیا گیا"۔ شیکسپیئر نے لکھا ہے:
Who has found mercy
اب یہ لفظ دعائیہ بن گیا ہے، جس طرح عربی میں بہت سے فقرے صیغۂ ماضی کے ہیں لیکن وہ بزرگ مرحومین کے نام کے آگے تعظیماً دعا کے طور پر لگا دیئے جاتے ہیں۔ یہ بات اخلاق کے خلاف معلوم ہوتی ہے کہ ہم بنی آدم کے ایک بڑے طبقے کو اپنی دعا سے محروم رکھیں۔ اور یہ اللہ کی صفت رحمانی اور ارحم الراحمینی کا بھی تقاضا ہے کہ ہم امید رکھیں کہ اپنی اپنی جگہ پر سب پر مہربانی ہوگی۔ لہذا میں اس بھونڈے اور تکلیف دہ لفظ "آنجہانی" کو واجب الترک سمجھتا ہوں۔
"مرحوم" سب کے لیے ٹھیک ہے۔
علامہ اقبال نے بھی غیر مسلموں کے لیے "مرحوم" لکھا ہے۔ اس اطلاع کے لیے میں رفیع الدین ہاشمی کا ممنون ہوں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں