اردو دنیا کے ممتاز فکشن نگار حسین الحق انتقال کر گئے - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2021/12/23

اردو دنیا کے ممتاز فکشن نگار حسین الحق انتقال کر گئے

Hussain ul Haq

حسین الحق (پیدائش: 2/نومبر 1949، سہسرام، بہار)
برصغیر کے ممتاز فکشن نگار آج بروز جمعرات 23/دسمبر 2021 پٹنہ میں اس سرائے فانی سے، بعمر 72 سال رخصت ہوئے۔ اطلاعات کے بموجب ان کی تدفین کل بعد نماز جمعہ ان کے آبائی وطن سہسرام میں عمل میں آئے گی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
افسوس کہ ابھی کسی ویب سائٹ پر یہ اطلاع شائع نہیں ہوئی۔

Hussain ul Haq amawas mein khwaab

حسین الحق۔۔۔ سریندر پرکاش، بلراج مین را اور غیاث احمد گدی کی نسل کے بعد آنے والے ایسے صاحب قلم تھے جنہیں کسی خاص ادبی حلقے کا اسیر نہیں مانا جا سکتا، جبکہ "شب خون" جیسے معتبر ادبی رسالے میں ان کی تخلیقات مسلسل شائع ہوتی رہیں۔
اسی سال مارچ 2021ء میں اپنے ناول "اماوس میں خواب" پر انہیں باوقار ساہتیہ اکادمی ایوارڈ حاصل ہوا تھا۔


ممتاز بزرگ قلمکار فاروق ارگلی اپنے مضمون "پروفیسر حسین الحق" (شائع شدہ: مارچ 2021ء) میں لکھتے ہیں ۔۔۔
ڈیڑھ سو سے زیادہ افسانوں اور دو عہد ساز ناولوں کے خالق حسین الحق کے افسانوی مجموعے 'پس پردۂ شب' (1991)، صورتِ حال (1982)، گھنے جنگلوں میں (1989)، مطلع (1996)، سوئی کی نوک پر رُکا لمحہ (1996)، نیو کی اینٹ (2010) غور سے دیکھیں تو ایک سو سے زیادہ حسین الحق کے افسانے اُردو فکشن کی آبرو قرار دیئے جا سکتے ہیں۔
لیکن 'نیو کی اینٹ'، 'چپ رہنے والا کون'، 'ندی کنارے دھواں'، 'استعارہ'، 'ایندھن'، 'مورپاؤں'، 'جلیبی کا رس'، 'کربلا'، 'زخمی پرندے'، 'گونگا بولنا چاہتا ہے'، 'سبحان اللہ'، 'وقنا عذاب النار'، 'انحد'، 'کہاسے میں خواب'، 'مردہ راڈار'، 'لڑکی کو رونا منع ہے' اور 'جلتے صحرا میں ننگے پیروں رقص' وغیرہ
۔۔۔۔ ایسی تخلیقات ہیں جنھیں افسانوی ادب میں دوام کا درجہ دیا جاتا ہے۔ حسین الحق کی کہانیوں کے بارے میں یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ تاریخ، کلچر، مذہب اور اساطیر سے کم آگاہ قاری ان سے پوری طرح محظوظ نہیں ہو سکے گا۔ دراصل ان کا تخصص یہ ہے کہ انھوں نے ماضی کے واقعات اور اساطیر کے حوالے سے اپنے عہد کی سنگین حقیقتوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

hussain ul haq

حسین الحق کی افسانہ نگاری سے متعلق، دو دہائی قبل ڈاکٹر قیام نیر نے بڑا بامعنی تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا:
"حسین الحق صاحب افسانہ نگاری کے تیسرے دور سے لکھ رہے ہیں، یہ وہ دور تھا جب افسانے میں نئے نئے تجربے ہورہے تھے، علامت نگاری کا بول بالا تھا، شعور کی رو پر کہانیاں لکھنا ایک فیشن بن چکا تھا، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بھی اس رجحان اور اس رویے کو اپنایا، لیکن اس ڈھنگ سے اپنایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے جدید افسانوں کی دُنیا میں ان کا نام اہمیت کا حامل بن گیا۔ وہ اُردو افسانوں میں اظہار کی تیز ترین دھار، نئے نئے الفاظ کے انتخاب اور جملوں کی تخلیقی سطح کی وجہ سے اپنے ہم عصروں سے کافی آگے بڑھ گئے ہیں۔ وہ کسی مسئلے کو سننے سے زیادہ محسوس کرتے ہیں اور بے باک ہوکر گفتگو کرتے ہیں۔ یہی ایک ایسی طاقت ہے جس کے ذریعہ وہ پوری کائنات کو سانسوں میں اُتار لینا چاہتے ہیں۔
حسین الحق نے ماضی کے حالات علامتوں کے پرپیچ تنوع کے ساتھ پیش کیا ہے۔ خصوصیت سے تقسیم ہند کے بعد ہونے والے ہولناک واقعات، فرقہ وارانہ فسادات کے اثرات، سماج میں پھیلی ہوئی بدعنوانی، گندگی، تہذیبی زوال اور جنوب مشرقی ایشیا کے سیاسی پس منظر کو پراسرار انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہیں کہیں فضا آفرینی اور تجریدیت کی بوقلمونی ان کے افسانوں میں موجود ہے۔"


حسین الحق کا یادگار افسانہ "گونگا بولنا چاہتا ہے" تعمیر نیوز پر یہاں پڑھیے

*****
© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
23/دسمبر/2021


Sahitya Akademi Awardee Urdu Fiction writer Hussain ul Haq passes away aged 72.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں